لہولہان غزہ

Israel

Israel

اسرائیل نے 30 جون 2014 کو اپنے 3 لڑکوں کے نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا اور قتل کئے جانے کے بعد غزہ میں 8 سال سے دنیا کی سب سے بڑی اور کھلی جیل میں رہنے والے 18 لاکھ فلسطینیوں پر آتش و آہن کی بارش شروع کر رکھی ہے۔ دو ہفتوں کے دوران شہدا کی تعداد ساڑھے تین سو زیادہ ،زخمی تین ہزار سے زیادہ جبکہ قیدی ہزاروں میں ہیں۔اسرائیل اب تک یہ بھی ثابت نہ کر سکا کہ تین یہودی لڑکے جو قتل ہوئے ان میں فلسطینیوں کا کوئی ہاتھ تھا، نہ ہی کسی فلسطینی گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول کی ۔بس بھیڑ کے بچے کو کھانے کے لئے بھڑیئے نو جو چاہا وہ کہہ کراسے چیڑ پھاڑ کر کچا نگلنا شروع کر رکھا ہے۔

سارا عالم صرف تماشائی ہے۔ 3 یہودی لڑکوں کے قتل کی جس طرح اور جن الفاظ میں باراک اوبامہ،ڈیوڈ کیمرون،اقوام متحدہ،ویٹیکن سٹی سمیت ہر کسی نے مذمت کی اس کا مثال تاریخ انسانی میں ملنا ناممکن ہے۔لیکن اب غزہ کے قید خانے میں ہر طرف ننھے بچوں کے جسموں کے بکھرے ٹکڑے، جلی لاشیں، زخمی بدن، آہیں بھرتی عورتیں، آنسو بہاتے مرد اور ہر طرف اٹھتے آگ کے شعلے، دھواں، گرتی عمارتیں اور تباہ حال مساجد و املاک ساری دنیا دن رات دیکھ رہی ہے لیکن کسی کو اس بات کی جرأت نہیں کہ اسرائیل کو اس قدر کھلی، ننگی اور بدترین دہشت گردی پر کوئی سخت لفظ بول کر روکنے کی ہمت کرے۔

فلسطینی والدین لرزتے بدن اور برستی آنکھوں سے اپنے نومولود بچوں کے ٹکڑوں کو سینوں سے چمٹائے، قبروں میں اتار رہے ہیں۔ 2سالہ ننھی بچی کا باپ چھین لیا گیا… وہی بچی جو اپنے باپ کی بانہوں میں کھیلتی تھی اور جس کو جوانی پر باپ نے رخصت کرنا تھا، آج وہ اپنے باپ کا بوسہ لے کر اسے اس سفر پر روانہ کر رہی ہے کہ جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آتا۔ اس ننھی بچی کے دل پر کیا گزری ہو گی؟ کہ اس کے باپ کو کیا ہوا؟ اب جو اٹھتا نہیں، بولتا نہیں…پیار نہیں کرتا۔

آج غزہ کی ہر تصویر دلخراش ہے… ہر منظر دل کو پاش پاش اور جگر کو قاش قاش کر دینے والا ہے… غموں سے نڈھال، آنسوئوں میں ڈوبی غزہ کی خواتین کو سہارا اور دلاسہ دینے والے بھی اپنے اور آپس میں ایک دوسرے کے علاوہ کوئی نہیں۔ ساری دنیا انہیں آگ پر جلتا، ملبہ میں دبتا… تڑپتا… روتا… چلاتا … دیکھتی ہے اور سبھی اپنے اپنے انداز میں ان مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پاکستان کی رہنے والی ایک بچی ملالہ کے نام پر تڑپ تڑپ جانے والا سارا عالم اور اس کا میڈیا اب کوئی نوحہ گری نہیں کرتا، کسی کی آنکھوں میں کوئی آنسو نہیں۔

وجہ صرف ایک ہے کہ اسرائیل کے ہاتھوں بدترین طریقے سے کٹنے مرنے والے فلسطینی کوئی عیسائی، یہودی، ہندو یا بودھ مت نہیں بلکہ مسلمان ہیں اور ملالہ کا ملال تو اسی لئے تھا کہ اس کے ذریعے بھی اسلام اور اسلام کے قلعہ پاکستان کو ہی بدنام کرنا مقصود تھا جو اس کے ہاتھوں قادیانیت کا دفاع کر کے اور سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے کرداروں کے ساتھ کھڑا کر کے بتا دیا کہ ملالہ کا ڈرامہ بھی صرف مسلمانوں کو تڑپانے اور ستانے کے لئے تھا۔

ورنہ ملالہ کے غم میں آج بھی پاگل اور نڈھال ہونے والے امریکہ، یورپ اور ان کی تنظیموں اور شخصیات کو یہ مسلی کلیاں نظر کیوں نہیں آتیں؟ اسرائیل نے فلسطین میں پہلے بھی کتنی بار یونیورسٹی اور سکولوں پر بھی بمباری کی۔ کتنے طلباء و طالبات کو کلاس رومز میں بیٹھے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ تعلیمی اداروں کو کھنڈروں میں تبدیل کیا لیکن یہاں کسی کو نہ تعلیم کا خیال آیا نہ طلباء کا… بلکہ اس سب ہولناک سوانح پر تو ان میں کہیں کوئی معمولی جنبش تک نہ ہوئی… آخر کیوں…؟

آج ہم روزانہ خبریں سن رہے ہیں کہ آج اتنے فلسطینی شہید ہو گئے، اتنی تعداد میں زخمی ہیں، اتنی تعداد میں عمارتیں تباہ ہو گئیں… لیکن اس کو روکنے کی کہیں کوئی بات نہیں۔ سفاکیت کی انتہا دیکھئے کہ مغربی دنیا بشمول امریکہ اور ان کا میڈیا یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے مابین برابر کی جنگ ہو رہی ہے اور کہا لکھا جاتا ہے کہ جنگ بندی کی کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں۔ اسرائیل گولہ باری اور بمباری کر رہا ہے تو حماس کی جانب سے راکٹ برسانے کا سلسلہ بھی برابر جاری ہے۔

یعنی یہ برابر کی جنگ ہے جس میں دونوں معصوم ہیں یا دونوں برابر مجرم، یہ کیسا طرفہ تماشا ہے کہ ہمیں صرف مسلمان ہونے کے ”جرم” کی پاداش میں یوں تڑپا تڑپا کر بچوں کے سامنے اور ہمارے بچوں کو ہمارے سامنے مارا جاتا ہے۔ ہمیں زندہ جلایا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھر ہمارے جسموں کے ان جلے کٹے ٹکڑوں پر ”دہشت گرد” لکھ دیا جاتا ہے۔

Terrorism

Terrorism

دنیا میں اس قدر ناانصافی، ظلم اور دہشت گردی کی حالت زار شاید چنگیز خان اور ہلاکو خان کی تاریخ میں بھی نہ مل سکے جو انسانوں خصوصاً مسلمانوں کو مارتے تو تھے لیکن ان کا حشر اتنا برا نہیں کرتے تھے جتنا آج امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک، افریقی یونین اور اسرائیل کر رہا ہے۔ اگر اس ظلم و دہشت گردی کے خلاف کوئی مسلمان شخصیت یا چھوٹی موٹی جماعت زبان سے کوئی لفظ نکالے تو امریکہ، اس کے اتحادی اور ان کے ادارے فوری طور پر ان کو دہشت گرد قرار دے کر پہلے ان کا ناطقہ بند کرتے ہیں اور پھر سارے مل کر ان کا قتل عام شروع کر دیتے ہیں۔

ان حالات میں مسلمانوں کے لئے سوائے جہاد فی سبیل اللہ کے اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔ مسلم حکومتیں اگر متحد ہو کر میدان میں نہ آئیں تو امریکہ اور ان کے اتحادی انہیں ایک ایک کر کے نشانہ بناتے رہیں گے۔ مسلمانوں کی حالت بالکل ایسے ہی ہو چکی ہے جیسے مرغیوں کے ڈربے میں بند مرغیوں کی ہوتی ہے۔ قصاب ڈربے میں ہاتھ ڈالتا ہے، ایک ایک کر کے ساری مرغیوں کو ذبح کر ڈالتا ہے لیکن ہر بار پیچھے بچ جانے والی مرغیاں معمولی حرکت اور نحیف آواز نکال کر پھر خاموش ہو جاتی ہیں کہ جو چلی گئی اور ذبح ہو گئی۔

یہ اسی کا مقدر تھا ہماری باری تو کبھی نہیں آ سکتی۔ وہ مسلمان جو تھائی لینڈ، فلپائن، سری لنکا، برما، بھارت، کشمیر، افغانستان، وسط ایشیا، عراق، شام، فلسطین، یمن، صومالیہ، وسطی افریقہ سمیت جگہ جگہ روزانہ کٹ مر رہے ہیں، ہم سب یہی سمجھ رہے ہیں کہ باری انہی کی ہے ہماری نہیں آ سکتی۔ آخر ہم یہ کیوں نہیں دیکھ رہے کہ یہ سلسلہ پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ ہاں! اس میں ایک خوش آئند پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ مسلمانوں کو اس انداز میں قتل کرنے اور مارنے والے شدید فرسٹریشن کا شکار ہیں کیونکہ انہیں گزشتہ چند سالوں میں کئی محاذوں پر شکست کا بھی سامنا ہوا ہے۔

وہی امریکہ جو سمجھتا تھا کہ ان کا ایک شہری ساری دنیا کے انسانوں سے زیادہ قیمتی ہے اور وہ اپنے ایک شخص کی خاطر ساری دنیا تباہ کر سکتے ہیں، آج وہی عراق کے بعد افغانستان سے اپنے ”قیمتی انسانوں” کی لاشوں سے بھرے جہاز وصول کر رہے ہیں۔ عراق کو خاک و خون میں تڑپا کر پھر نئی حکومت بنانے والے آج وہاں اپنی فوج دوبارہ بھیجنے سے گریزاں ہیں۔ باراک اوبامہ کہہ رہا ہے کہ ہم دنیا کے کسی خطے میں اب فوج نہیں بھیجیں گے۔ جان کیری عراق جنگ کو سب سے بڑی غلطی قرار دے رہا ہے۔ اندھے ظلم اور بے پناہ قتل و غارت گری کے درمیان امید کی یہی ایک شمع روشن ہے۔

امریکہ افغانستان سے اتحادیوں سمیت اگر ذلیل ہو کر نکل رہا ہے تو اس کے سب سے بڑے اتحادی بھارت پر لرزہ طاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے بعد بھارت میں مسلمان آزادی کیلئے جاگ رہے ہیں۔ اب امت مسلمہ کے ہر خطے اور ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ ظلم و دہشت گردی کی اس تاریک رات کو جلد پاٹنے کے لئے اپنی اپنی شمعیں روشن کرے تاکہ وہ وقت ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں جس کے بارے میں پیارے نبی محمد کریمۖ نے فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا یہودیوں کو جائے پناہ نہیں ملے گی اور پھر ہر درخت اور پتھر بھی بول اٹھے گا کہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہے۔

اے مسلمان! آ اور اسے قتل کر۔آج ہی نہیں 1946 سے فلسطین میں اس قدر بے دردی سے خون بہانے والے یہودیوں کو ہی تو اللہ نے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن قرار دیا ہے اور ان کی اس دشمنی اور شقاوت کی وجہ سے ہی تو ان کے یوں مارے جانے کی پیش گوئیاں آتی ہیں۔ اگر ہم اس طرف بڑھیں گے، تو منزل جلد ملے گی ورنہ ہماری یہی حالت رہے گی۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین