اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی عدالت عظمی کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک کی بعض سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی خاطر دہشت گردی کی حمایت کرتی ہیں۔
نئے عدالتی سال کے آغاز پر پیر کو منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ’’ہمارا ملک جس دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اس میں اگرچہ اکثر اوقات بیرونی ہاتھ شامل ہوتا ہے مگر اسے کہیں نہ کہیں سے ہمارے اندر سے بھی حمایت اور مدد حاصل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بدقسمتی سے بعض سیاسی جماعتیں بھی اپنے مفادات کی خاطر ان عناصر کی حمایت کرتی ہیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ عدالت اپنے کئی فیصلوں میں اس جانب اشارہ بھی کر چکی ہے۔
’’جیسا کہ کراچی بد امنی کیس اور بلوچستان بدامنی کیس میں یہ عدالت اس بات کا ذکر کر چکی ہے کہ بعض تخریبی عناصر کے روابط اور تعلقات مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں سے پائے گئے ہیں جس کا فوری تدارک کیا جانا چاہیئے۔‘‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں تمام اداروں کی حدود متعین ہیں اور اُن کے بقول اچھے طرز حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ تمام ادارے آئین کے مطابق طے شدہ حدود میں رہ کر کام کریں۔
’’ملک کی بدلتی ہوئی معاشرتی اور اقتصادی صورتحال کو دیکھتے ہوئے تمام ریاستی اداروں کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں اور باہمی مشاورت کے ساتھ آگے بڑھیں تا کہ در پیش مشکلات اور چیلنجوں کا مقابلہ مشترکہ طور پر کیا جا سکے۔ ماضی میں کچھ عناصر کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ شاید اداروں میں تصادم کی سی صورتحال ہے۔‘‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماضی میں عدالت پر یہ تنقید کی جاتی رہی کہ وہ حکومت کے انتظامی معاملات میں ضرورت سے زیادہ مداخلت کرتی ہے۔
’’اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے عدلیہ اور مقننہ نے بین الادارتی مکالمہ کی ضرورت محسوس کی۔ اس سلسلے میں پہلے سپریم کورٹ کی دعوت پر جناب چیئرمین سینیٹ نے سپریم کورٹ میں خطاب کیا۔ جس کے بعد 30 نومبر 2015 کو میں نے عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے عدالتی اصلاحات کے حوالے سے سینیٹ میں خطاب کیا۔ اس طرح نہ صرف اداروں کے مابین تعاون کو فروغ حاصل ہوا بلکہ مستقبل میں اس میں مزید بہتری کی امید ہے۔‘‘
اُنھوں نے اپنے خطاب میں بانی پاکستان قائداعظم کے 11اگست 1947ءکے خطاب کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تمام مذاہب کے رہنے والے آزاد ہیں۔
چیف جسٹس انور جمالی نے کہا کہ قائداعظم کے اس بیان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ملک ہو گا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ حالات میں ضلعی عدلیہ جو کہ عدالتی نظام کا ایک اہم جزو ہے، اُس میں بہتری لانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔