عید الفطر، یہ کرچیاں سی کون میری آنکھوں میں جڑ گیا

Immersed Settlements

Immersed Settlements

تحریر: ایم آر ملک

زخم ہیں آبلے ہیں دودھ سے بلکتے بچوں کی چیخیں ہیں نظر نظر سلگتی ہوئی حیرانی ہے وقت کی دھول سے اٹے چہرے ہیں ہر اس جن پر چھایا ہے زندگی آنسو ئوں کے دیئے جلاتی وقت کے بے چراغ رستوں پر رواں دواں ہے بے بسی کے جیون میں شاہرائوں پر بے سروپا وہ جسم ہے جنہوں نے حشر کا دن اگر نہیں دیکھا تو حشر کاذائقہ ضرور چکھا ہے ۔خوں آشام منظر میں ڈوبی خوشاب، مظفرگڑھ، رحیمیارخان ،ملتان ،صادق آباد کی وہ بستیاں ہیں جہاں آنکھ کے دشت میں دہکتے الائو لیے زندگی کی دہلیز پر بیٹھے ہزاروں بے جان جسم وقت کے گرداب میں ٹوٹی ہوئی کشتی کی طرح ہچکولے کھا رہے ہیں۔

وقت کے کپکپاتے ہوئے ہاتھ سے چھوٹ کر محرومیوں کے گہرے گڑھوں میں پڑے ہیں افسردہ ڈھانچے مقامی صاحبان ِ اقتدار سے فریاد کناں ہیں ۔ خاموش جذبوں کو زباں دینے کی رت جیسے ان پر اتری نہیں کہ ا ن کے زردی مائل چہروں پر نکھا ر نہیں وہ جن کے اپنے ہمیشہ کے لیے بے رحم موجوں کے بھنور میں پھنس گئے اور ان کا وجود تک نہ ملا ان کے لبوں پر مسکراہٹ نہیں گھٹن ہے ۔ خواہشات مٹ گئیں اور تمنائیں سسک سسک کر دم توڑ رہی ہیں۔آرزوئیں پامال ہو جائیں تو انسان ایک ایسی چیز کی خواہش کرنے لگتا ہے جسے موت کہتے ہیں خیموں میں فلڈ ریلیف کیمپوں میں محصور اکثریت ہے۔

جن کی آنکھوں میں چمکنے والے آنسو خود ان کے ارمانوں کی تربت پر بکھر گئے ۔ سسکیاں ان کے بچوں کے لبوں پر نغمہ طرب کہنے کی آرز و میں فضائوں میں بکھر گئیں اور جو زخم زار و قطار روتے ہوئے لمحوں کی یاد دلارہے ہیں، کیا انہیں فراموش کیا جاسکتا ہے۔خواب ریزہ ریزہ اور جذبے کسی بوسیدہ دیوار کی طرح ڈھے گئے۔ سوچیں تھکن کا شکار ہیں کہ مستقبل کیا ہو برداشت کی آخری حدوں پر کئی روز سے مقید وجود ہیں جب برداشت کی طاقت کھونے لگتی ہے تو ایک جنون ایک وحشت وجود کے اندر ہی اندر سر ابھارنے لگتی ہے جو انا کے پتھریلے مجسمے کی کر چیاں بکھیر کر انتظامیہ حکومت کے جھوٹے دعوئوں کو شکست فاش دے دیتی ہیں۔دھوری سالم کی ماں ہے جو اپنے چار بچوں کو لے کر آشیاں کی تلاش میں اور دو لخت جگر ماں ماں کرلاتے پانی کے بھنور میں گم ہوگئے۔ ماں کے ہاتھ جو اپنے لخت جگر کی درازی عمری کی دعائیں مانگتے ہیں نے 2 چھوٹے بچوں کو سینے سے چمٹا رکھا تھا۔

چھلکتی آنکھیں سمندر کی طرح بہتی ہیں اور ممتا کا دل لمحہ بہ لمحہ پگھل رہا ہے ۔ہجر کے صرف ایک لمحے میں صدیوں کا کرب سمٹ آیا۔ گردشِ لیل و نہارکیا کیا تماشے دیکھاتی ہے کبھی اجڑ ے ہوے لوگ اچانک راحتوں کے سائے تلے بس جاتے ہیں اور کبھی ہنستے بستے گھرانے راحتوں اور خوشیوں سے محروم کر کے اُجاڑ دیئے جاتے ہیں ۔ایسے ہی جیسے لہلہاتی ہوئی کھیتیاں فصل کٹ چکنے کے بعد ویران اور اُجاڑ سی ہوجاتیں ہیں ۔نشیبی علاقہ تو خوابوں کی سر زمین ہے جہاں سبزیاں کاشت ہوتی تھیں۔ خالص دودھ گوالے شہریوں کے لیے لاتے خوابوں کی یہ سر زمین جہلم ،چناب کے منہ زور ریلوں کے ہاتھوں لٹ کر ویران ہوئی۔سرحد پار کے ایجنٹ غدارِ وطن 10 ارب ڈالر کے عوض جنہوں نے حب الوطنی بیچ ڈالی خوشحالیِ وطن کے عظیم منصوبہ کالا باغ ڈیم کی راہ میں مزاحم رہے۔

نام نہاد دانشوروں نے اپنی زبان کی غلاظت اُگلی اتنے بڑے سانحہ کی زمہ داری ان دانشوروں پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ایک کروڑ ساٹھ لاکھ وطن کے باسیوں کی آنکھوں میں مایوسی اور نا امید ی کی جو دھند چھائی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہیں ۔مایوسی کی اس دھند نے محبان وطن کے جینے کی ساری راہیں مسدود کردی ہیں ۔کیا اتنے بڑے سانحے کے بعد جس میں400 نفوس جاں سے گزر گئے مطلع چھٹنے کے بعد نفرتیں اور کدورتیں دھل جائیں گی؟ہمیشہ کے لیے بچھڑے ہوئے وجود اور ٹوٹے ہوئے دل کیا پھر سے جڑ جائیں گے ؟ نشبی علاقہ کے لوگ آج اُداس موسمو ں کے باسی ہیں اور وطن کی خوشحالی کے سب سے بڑے منصوبے کے مخالفوں نے 18 کروڑ باسیوں کی خوشیوں کا گلا گھونٹا ان کے ہونٹوں سے مسکراہٹیں چرا کر درد کے نغمے بکھیرے اور وطن عزیز کی عوام کی دائمی خوشیوں پر اپنے اپنے مفادات کی چھری پھیری۔

Life

Life

ارمانوں کا خون کیا ان کی امنگوں کو ابدی نیند سلانے کے لیے دن رات ایک کردیا۔ کرائے کے دانشوروں سے کانفرنسیں کرائیں۔ کیا ہمارے جذبات احساسات اور خواب اس قدر حقیر ہیں کہ تعبیر کے حق سے محروم ہیں ؟اِک جنونی کیفیت پوری قوم کے اندر محروم سوچوں کا لاوا اُگل رہی ہے ایسی سوچوں سے اس قوم کو چھٹکارا کب ملے گا ؟آج جو زخم زخم لوگوں کے چاروں طرف دکھوں کے پہاڑ پھیلے ہیں جنہیں عبور کرنا اور ان کے پیچھے چھپی مسرتیں پانا جن کے لیے ناممکن ہے ان میں سے اکثر حالات کے بھنور میں پھنسے دل کی کرچیوں کو سمیٹتے ہوئے اپنے ارد گرد بکھرے کانٹوں سے یہ پو چھتے ہوئے جیون ہار رہے ہیں کہ کیا ان کی زندگی کا سرمایہ اشکو ں کی برسات تھی دکھوں کو سسکیوں کے تابوت میں بند کر کے آخر کب تک رکھا جا سکے گا ؟ لاوا تو اُبلتا ہے

صبر کے بند ٹوٹ جائیں تو بغاوت کے سیلاب میں سب کچھ فناہوجاتاہے پھر اُن کی عید کیسی ہوتی ہے ؟ نام نہاد دانشورو! احساس کی آنکھیں کھول کر دیکھو اس آفت ناگہانی سے ایک بوڑھا جو اپنی ٹوٹی ہوئی لاٹھی کی لحد سے لپٹے ہوئے زرد غموںکے جھر مٹ میں موت کے انتظار کی شمع جلائے سسک رہا ہے اس کے تین جوان بیٹے ہمیشہ کے لیے اسے داغ مفارقت دے گئے ۔ تمہاری سفلی سانچو ں میں ڈھلی ہوئی دیرینہ سفاکیوں نے کتنی مائوں کی آغوش سے گلاب چھین ڈالے اُن میں روح تک اُتر جانے والے کانٹے بھر دیئے کتنی بہنیں آنسوئوں میں بھیگے ہوئے آنچل آہوں کی دھوپ میں سکھا رہی ہیں مگر آنچل ہیں کہ بھیگتے چلے جارہے ہیں۔

لاکھوں متاثرہ جسموں کے سر د خانوں میں جینے کی تمنائیں منجمد ہوتی جارہی ہیں ۔ چہروں کی سر خ رنگتوںمیں زردیوں کے مہیب سائے تسلسل کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں۔ مگر اس بار تاریخ نے جو المناک تباہی رقم کی ہے۔ اس کے شعلہ انتقام میں تمہاری دانشوری ہمیشہ کے لیے جل کر راکھ ہونے والی ہے۔کہ کالا باغ ڈیم ہی ہماری سلامتی بقاء استحکام اور تحفظ کی ضمانت ہے۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک