بجلیاں پوشیدہ ہیں آستینوں میں!

Election Commission

Election Commission

ملک کی فضا میں خاص کر شہرِ قائد میں دھماکہ خیزی کی سنسناہٹ جاری ہے اور نگرانوں کو ابھی تک ہوش ہی نہیں آ رہا ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن کو کہ جن کہ بقول الیکشن شفاف کروائیں گے؟ اس سوگوار فضا میں کس طرح الیکشن شفاف ہونگے؟ جب لوگوں کو تحفظ کی اشد ضرورت ہے اور یہاں عدم تحفظ کا رواج پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ گیارہ مئی 2013ء کچھ زیادہ دور نہیں وقت کی سیلِ رواں گزر رہا ہے اور وہ دن بھی آ ن پہنچے گا جس کا چرچا ہر ادارہ کر رہا ہے کہ الیکشن شفاف ہونگے۔ مگر عوام تذبذب کا شکار ہیں کہ یہ دعوے ٰ صرف دکھاوا ہی ہیں کیونکہ اگر یہ ارباب مستقل مزاجی سے امن و امان کے مسئلے کو سلجھانا چاہیں تو کوئی بڑی نہیں کہ وہ اس پر قابو نہ پا سکیں۔

مگر کانوں میں روئی ڈال کر سوئی ہوئی نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ایسے میں بڑی سیاسی پارٹیاں اپنی صفیں درست کرنے، پُر کشش ایشوز تلاش کرنے اور عوام کو بے مطلب کی بحثوں میں الجھانے کے راستے ڈھونڈ رہی ہیں۔ کیا کوئی جماعت بھی جو اپنے آپ کو قومی جماعت ہونے کے دعوے دار سمجھتے ہیں انہیں شہرِ قائد پر ہونے والے مظالم پر اور خاص کر الیکشن کمپیئن پر حملوں کے لئے آواز اٹھانے کی فرصت نہیں یا صرف آپسی سیاسی اَن بَن کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے لئے آواز بلند نہیں کر رہے ہیں۔ شہرِ قائد میں آج کی ہڑتال نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عوام امن و امان چاہتے ہیں۔

سکون چاہتے ہیں، جینے کا حق چاہتے ہیں، کیا یہ سب کچھ مانگنا غلط ہے جو اربابِ اختیار ان بنیادی مسئلوں کی طرف سے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ بات کڑوی ضرور ہے مگر اس میں کہیں نہ کہیں حقیقت پوشیدہ ہے کہ لوگ یہ کہتے ہوئے پائے جا رہے ہیں کہ قاتل حملہ کرتے ہیں اور پھر سکون سے فرار ہو جاتے ہیں ایسے میں ہماری سیکوریٹی کیا کر رہی ہے ، کیا ان پریہ سوالیہ نشان نہیںہے کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ صرف سڑکوں پر شریف النفس لوگوں کو روک کر تلاشی کے بہانے ان کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنا ہی ان کا وطیرہ رہے گا یا وہ آگے بھی کچھ کریں گے؟حالانکہ وہ بیچار ے بھی اس کام کے علاوہ امن و امان کے لئے کوششیں کرتے ہونگے مگر تاحال ناکام نظر آتے ہیں۔

Terrorist Pakistan

Terrorist Pakistan

ملزمان پکڑے بھی جاتے ہیں تو پتہ نہیں کیوں عدم ثبوت کی بناء پر چھوٹ جاتے ہیں۔ اگر اسی طرح یہ سارا سلسلہ جاری رہا تو پھر مختصراً صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ خدا خیر کرے عوام کے حال پر!امن و امان کی دگر گوں صورتحال میں بے قصور، معصوم نوجوانوں سمیت ہر عمر کے لوگ لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ شہرِ قائد میں ہر موج کے جال میں سینکڑوں مگر مچھ جیسے قاتل اپنے مہیب جبڑے کھولے شکار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے وہ کاروائی کر ڈالتے ہیں۔ اب بھی حکومت نہ جانے ابرِ بہار کے قطرے کب تلاش کرے جبکہ عوام سیپ کے منھ میں گہر بننے کے انتظار میں ہیں۔

کس کس جگہ اور کہاں کہاں کی بات کی جائے ۔ یہ معاملہ تو کسی شہر میں زیادہ اور کسی میں کم مگر دہشت گردانہ سرگرمیاں ہر جگہ موجود ہے۔ آج شہر کیا گائوں بھی انہیں مسائل سے دوچار ہے۔ جمہوریت کی کھیتی سے اب تک روزی نہ پا سکنے والے حُرماں نصیب لوگ اکٹھے ہوکر ہر خوشہ گندم کو جلانے کے دَر پے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ سوکھے پتوں کی ڈھیر کی طرح ان کا مستقبل جلتا ہوا محسوس کیا جا رہا ہے۔ مگر کسی گوشہ سے تشویش و پریشانی کی لہر دکھائی نہیں دیتی، جو لوگ قیادت کے منصب پر بزعم خود فائز ہیں یا اس کا ارادہ رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ آنچ جتنی تیز ہوگی، آندھی جتنی بھیانک ہوگی۔

حالات جتنے دھماکہ خیز ہونگے ان کی قسمت کے ستارے اتنے ہی بلند ہوں گے اور جو سچ مچ آنے والے حالات سے پریشان ہیں وہ دنیا کے جھمیلوں میں پڑنا نہیں چاہتے کہ کہیں ان کی شخصیت کے تقدس کو ٹھیس نہ لگ جائے کیونکہ ایسے لوگوں کے تقدس کے آئینے بہت نازک ہوتے ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ یہاں کے عوام کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے ان کی سوچ غلط ہے کیونکہ عوام سیاست کے بازار میں خرید و فروخت کا حصہ نہیں ہیں، عوام کو ملک میں بے وقوف سمجھاجاتا ہے۔ اسے آئین کا پتہ نہیں سپریم کورٹ کی رولنگ سے بے خبر ہے۔

وہ قومی سیاست کے پیچ و خم سے ناواقف ہے، لہٰذا جو چاہے وعدہ کر لو، اپنے دامِ فریب میں پھنسا لو اور پھر پانچ سال تک وعدوں کو لاکر میںبند کر دو۔ ایسا نہیں ہے دوستو! عوام باشعور ہیں، اور سب کچھ سمجھتے اور جانتے ہیں ، خموشی صرف اس لئے ہے کہ وہ ملک میں افرا تفری کا بازار سجانے پر تیار نہیں کیونکہ پہلے ہی ملک میں کم افر ا تفری ہے کیا۔انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہاں کوئی انہیں بہترین مستقبل کی نوید نہیں دے سکتا ، اقتدار کی مچھلی کا شکار کرنے کے لیے سب سے آسان چارہ ہے اکثریت اور جس دن ملک میں لوگوں کی اکثریت نے کچھ سوچنا شروع کر دیا تو پھر۔۔۔۔۔۔۔؟اس وقت ملکی سیاست میں ایک بھونچال برپا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اداروں میں بھی سیاسی پارہ حدت کی حد تک پیوست ہے۔

Vote

Vote

آج بھی کہا جا رہا ہے کہ گیارہ مئی کو الیکشن شفاف ہونگے، ضرور شفاف الیکشن کروایئے جناب، مگر شفافیت صرف اخباروں اور میڈیا پر نظر نہیں آنا چاہیئے بلکہ اس شفافیت کا دارومدار ملک کے کونے کونے میں امن و امان کو فراہم کرکے ہی بنایا جا سکتا ہے تاکہ لوگ بلا خوف و خطر اپنے ووٹ کا حق استعمال کر سکیں، اگر حالات ایسے ہی رہے تو کون ووٹ ڈالنے نکلے گا، ظاہر ہے کہ ہر کسی کو اپنی زندگی پیاری ہوتی ہے، آپ تو سیکوریٹی کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کرکے شفافیت اور امن و امان کو کامیاب قرار دے سکتے ہیں مگر عوام کے پاس تو کوئی سیکوریٹی نہیں ہے پھر وہ بھلا کس بَل بوطے پر ووٹ ڈالنے نکلیں گے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ابھی سولہ روز الیکشن میں باقی ہیں اور کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے اتنے دن بہت ہوتے ہیں۔ اب بھی جاگ جائیں اور اپنے فرائض کو ذمہ دارانہ طریقے سے ادا کریں تاکہ شفافیت اور امن و امان دونوں برقرار رہیں۔

اسلام کا واضح اصول ہے کہ ایک نفس کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ایک نفس کا احیاء پوری انسانیت کے احیاء کے مترادف ہے۔ پھر یہاں تولوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے اور ایسا منظر دیکھ کر روح کانپ اٹھتا ہے اور کلیجہ منہ کو آجاتا ہے مگر کوئی عملی اقدامات نہیں کئے جاتے ۔ ہاں کیئے جاتے ہیں تو ایک مذمتی بیان داغا جاتا ہے اور فوری نوٹس لے لیا جاتا ہے، اور بس!البتہ ایسے لوگ جو پاکستان کو بے امن و امانی کا نشان بنانے کا خواب دیکھتے ہیں ان کا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوگا ان کو ہماری نصیحت ہے کہ وہ اس دیوانے کے خواب کو نہ پالیں جو کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو۔

ساتھ ہی حکومتِ وقت کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں جو ملک میں امن و امان کے لئے بے حد ضروری ہے۔ اور اس راستے میں روڑے اٹکانے والے بیورو کریسی کے لوگوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچائیں تاکہ ہمارے ملک میں صاف شفاف اور امن و امان کی فضا میں الیکشن ہو سکے۔ وگرنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جن کہ آستینوں میں بجلیاں پوشیدہ ہیں وہ بجلیاں سرِ عام نمودار ہونا شروع ہو جائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے ملک کو امن و امان عطا فرمائے اور نیک نیت حکمران بھی تاکہ عوام اور ملک دونوں ہی ترقی کے منازل میں ہم قدم ہو جائیں۔
لے گا زمانہ خون کی ہر بوند کا حساب
قاتل کو قتلِ عام سے تھکنے تو دیجئے
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی