زمانہ جاہلیت

Poor Labor

Poor Labor

تاریخ کا وسعت قلبی اور عمق کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چھٹی صدی عیسوی اس لحاظ سے زمانہ جاہلیت ہے کہ اس میں انسانی معاشرہ بے پناہ خرابیوں، ظلمتوں اور تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس معاشرے میں مذہبی، لسانی، قومیتی، جغرافیائی اور طبقاتی عصبیتیں رچی بسی ہوئی تھیں۔ ہر فرد، ہر قبیلہ، ہر حاکم اور ہر پیروکارِ مذہب فقط اپنی مستی احوال میں مگن نظر آتا تھا۔ ان کو اس امر سے کوئی سروکار نہ تھا کہ ایک انسان کا دوسرے انسان پر کیا حق ہے؟ غریب، مزدور، ضعیف، ماں، بہن، بیٹی، بیوی اور اپنے بھائیوں تک سے بھی محبت و الفت کا رشتہ استوار نہ تھا بلکہ ہر ایک اپنی ذاتی استراحت و عیاشی کے لیے دوسر ے انسانوں کے حقوق پر شب خون مارتا تھا۔ تمام مذاہب کے رہبر و راہنما انفرادی طور پر عبادتوں کا روایتی التزام تو ملحوظِ خاطر رکھے ہوئے تھے مگر اجتماعیت کے لحاظ سے وہ بھی ان تنگ نظریوں سے پاک نہ تھے۔

عیسائیت اور یہودیت کے محافظوں میں خلاف فطرت گروہ بندیاں موجود تھیں۔ ہندوئوں میں برہمن، ویش، کھشتری اور شودر کے نام پر معاشرہ بٹا ہوا تھا۔ سلطنت روم و فارس داخلی عصبیتوں کی محافظ تھیں اور اس امر قبیح پر وہ اظہار تفاخر کرتے تھے۔ الغرض ہر فرد پر تعیش انفرادی زندگی گذارنے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرنے میں تامل نہ کرتا تھا مگر اجتماعیت کا جنازہ نکل چکا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں افراد، معاشرہ اور ریاست کے مابین تعلقات تھے بھی تو وہ بھی انکے ذاتی مفادات و مصالح پر مبنی ہوتے تھے یعنی کہ جب مفاد مکمل ہو جاتا تو تعلقات اس طور پر منقطع کر دیے جاتے تھے کہ گویا ان کے مابین کبھی کوئی علاقہ تھا ہی نہیں۔ اسلام کی آمد اور بعثت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بعثت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے قبل چہار اطراف ظلمتیں، تاریکیاں، عصبیتیں، قومی تفاخر، لسانی و مذہبی تقسیمات رچ بس چکی تھیں۔

مزدور کے حق کو غصب کیا جا رہا تھا، ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے حقوق کی حق تلفیاں کی جاتی تھیں، حصول جاہ و منزلت کے لیے اپنے والدین سمیت خونی رشتوں کا بھی قتل عام کیا جاتا تھا۔ ایسے میں اللہ تعالی نے خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کی تمام برائیوں کی بیخ کنی شروع فرمائی، اس امر کا واضح یہ مطلب تھا کہ اللہ تعالی انسان کے ذاتی عابد و بزرگوار بننے سے بے پروا ہے جب کہ اللہ کے ہاں اجتماعیت، بہترین اخلاق، انسان دوستی، صلح رحمی، رنگ و نسل کی تقسیمات سے دوری، مساوات اور عدل مطلوب و مقصود ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے نبی آخر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت فرماکر ان پر وحی کے ذریعے انسانی زندگی کے کامل ضابطے کے نازل فرمانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اسلام نے انسانیت کو مجموعی نظام زندگی سے متعلق مکمل راہنمائی بیان فرمادی ہے۔

اسی پسِ منظر میں قرآن مجید میں اللہ تعالی نے متعدد مقامات پر اتحاد و اتفاق یا اجتماعیت کے احکامات بیان فرمائے۔ قومیت و عصبیت سے متعلق اللہ نے فرمایا کہ ”یا ایہا الناس انا خلقنٰکم من ذکر و انثی وجعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوا، ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم، ان اللہ عیلم خبیر(سورہ حجرات آیة 13)”ترجمہ :”اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا اور اس لیے کنبے اور قبیلے بنا دئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانو، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے” ایک اور مقام پر وحدت امت کی نشانی بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ ” ان ھذہ امتکم امة واحدة وانا ربکم فاتقون( سورہ المئومنون آیة 53)” ترجمہ:”یقیناً تمہارا دین ایک ہی دین ہے اور میں ہی تم سب کا رب ہوں پس مجھ سے ڈرتے رہو”۔

Allha

Allha

اسلام گروہ بندی سے منع کرتا ہے اس سلسلہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیا گیا ہے کہ ”واعتصموا بحبل للہ جمیعا ًوالا تفرقو او اذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداً فاالف بین قلوبکم فااصبحتم بنعمتہ اخوانا، وکنتم علیٰ شفا حفرة من النار فانقذکم منھا، کذلک یبین اللہ لکم اٰیٰتہ لعلکم تھتدون(سورة آل عمران آیة 103)”ترجمہ:”اللہ تعالی کی رسی کو سب مل کر تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ تعالی اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پائو”۔ عصر حاضر کے معروف اسلامی سکالر حضرت سید سلمان ندوی فرماتے ہیں کہ” (حبل اللہ ) سے مراد اللہ کا دین، اللہ کی شریعت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و اسوہ حسنہ ہے۔

اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر فرد انفرادی طور پر حبل اللہ کو تھام لے بلکہ اللہ تعالی کو مسلمانوں کی اجتماعیت و اتحاد مطلوب ہے جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”یداللہ علی الجماعة ”اللہ کا ہاتھ جماعت(اجتماعیت) پر ہے (مستدرک الحاکم ج 1ح 399 سند صحیح)۔ اللہ نے اسی اجتماعیت کو ”انما المئومنون اخوة”(سورہ الحجرات آیة10) بیشک مئومن آپس میں بھائی ہیں سے تعبیر کیا ہے”۔ملت اسلامیہ کے باہم اتحاد و اتفاق سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بہت سے فرمان صادر فرمائے ہیں ان میں سے ایک کی جانب اشارہ کرنا لازم جانتا ہوں کہ جب ہجرت کے بعد مؤاخات کی مضبوط بنیادوں پر مدینہ میں ریاست اسلامیہ قائم ہوئی تو مسلمانوں کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کے لیے شاس بن قیس یہودی نے قبیلہ اوس و خزرج کے مابین ماسبق دشمنی کا حوالہ دیکر ان کے زخموں کو کریدنا چاہا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی شریعت اسلامیہ کے مطابق راہنمائی فرمائی۔

اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجر و انصار کے درمیان بھائی بندی فرمائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھا کی اخوت و بھائی چارگی کی داستانیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ یعنی اسلام کی آمد کی برکت سے عرب قبائل جو چھوٹی باتوں پر سالہا سال جنگ کرتے تھے اور ہر قبیلہ اپنے تفاخر جاہ و حشمت پر حرف نہ آنے دیتا تھا، آپس میں ایسے شیر و شکر بن گئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو یا سیدی کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ اسی بات پر شاعر نے کیا خوب کہا کہ
جو خود نہ تھے راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا
عصر حاضر میں مسلمانوں کی حالت زار۔ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل جو صورتحال انسانیت کو درپیش تھی یقینا اس کا سبب یہ بھی تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے بعد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت 570 ب م تک کوئی نبی و رسول اس قوم میں نہیں بھیجا گیا۔

نہ ہی ان کے پاس کوئی واضح پیغام بر مبنی راہنما کتاب موجود تھی۔ 571 ب م میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔ لیکن بعثت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ہی یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں آپ کے بعد کوئی پیغمبر و رسول تا قیامت مبعوث نہیں ہو گا بلکہ قیامت کی صبح تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم رہے گی اور قرآن و حدیث کی شکل میں ملت اسلامیہ کے پاس رہنما دستور موجود ہیں۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ معاشرے سے زمانہ جاہلیت کی تمام قباحتیں مٹانے آئے تھے آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ان تمام خرابیوں میں لت پت ہو چکے ہیں۔ گویا کہ زمانہ جاہلیت کی وہ سب کی سب خرابیاں آج مسلم معاشرے میں موجود ہیں۔ لوٹ مار، حق تلفی، زنا، حرام خوری، شراب نوشی، مزدوروں پر جور و ستم کے پہاڑ توڑنا، ذاتی و قومی بالادستیوں سمیت تمام امراض آج بھی من و عن موجود ہیں۔

Mohammad Ali Jinnah

Mohammad Ali Jinnah

بلکہ ملت اسلامیہ چند ہاتھ آگے بھی نکل چکی ہے قومی، لسانی، سیاسی و مذہبی، رنگ و نسل، علاقائیت سمیت بے پناہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ پاکستان میں ہی اسلامی معاشرے کا حال دیکھ لیجیے کہیں پنجابی، بلوچی، مہاجر، پٹھان اور سندھی کی تقسیم موجود ہے تو کہیں سیاسی گروہ بندیوں میں ملت گم ہے۔ کہیں سلفیت، دیوبندیت، بریلویت سمیت متعدد چھوٹے بڑے گروپوں میں مذہبی وحدت کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ عدم برداشت و رواداری کی فضا اس حد تک ناپید ہو چکی ہے کہ فروعی اختلاف کی بنیاد پر ناصرف دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے فتوے جاری کر دیے جاتے ہیں بلکہ اپنے مخالف فریق کو ملعون و مطعون گردانتے ہوئے ان پر عرصۂِ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔ ہر گروہ اپنے آپ کو جنتی و کامیاب تصور کرتا ہے اور اپنے مخالف کو دو زخی اور ناکام و نامراد ٹھہراتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ملک پاک میں اسلامی نظام عملاً نافذالعمل نہیں ہو سکا جبکہ یہ ارض پاک خالص دو قومی نظریہ پر حاصل کی گئی تھی۔

اتحاد ملت پر مسلم مفکرین کی آرائ۔ مسلمانان عالم کی بالعموم اور مسلمانان پاکستان کی بالخصوص حالت ناگفتہ بہ ہے روز بروز تنزل و پستی میں گرتے جارہے ہیں۔ اس کا سبب صاف ظاہر ہے کہ ملک پاک جس اساس کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا 66 برس گذرنے کے باوجود اس پر عمل نہ ہو سکا۔ تحریک آزادی کی صدا میں اس امر کو بانی پاکستان محمد علی جناح نے خاص طور پر ملحوظ خاطر رکھا کہ ملت اسلامیہ مجتمع ہو جائے اسی لیے انہوں نے تحریک آزادی میں دو قومی نظریہ کو بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان کیا۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کے دست راست علامہ اسد دو قومی نظریہ کی اصل معنویت بیان فرماتے ہیں کہ ” اگر اسلام ہمارے لیے مقصود بالذات اور ایک اخلاقی داعیہ نہیں ہے، اگر اسلام محض ایک عادت ،ایک رسم اور ایک ثقافتی ٹھپہ بن کر رہ گیا ایسی صورت میں یہ تو ممکن ہے کہ ہم اپنی عددی قوت کے بل پر پاکستان قسم کی کوئی چیز حاصل کر لیں، لیکن ایسا پاکستان اس پاکستان کے برابر نہ ہو گا جسے حاصل کرنے کے لیے اللہ نے ہمیں بے حد و بے شمار امکانات سے نوازا ہے۔

ایسا پاکستان بے شمار قومی ریاستوں کے منقسم ہجوم میں ایک اور ”قومی ریاست”سے زیادہ کچھ نہ ہو گا۔ بہت سی ریاستوں سے اچھایا بہت سی ریاستوں سے برا۔ مسلم عوام کے تحت الشعور میں بسا ہوا خواب اور ان لوگوں کے شعور میں آیا ہوا خواب جنہوں نے پہلے پہل پاکستان کی باتیں اس وقت کیں جب یہ پردئہ شہود میں نہ آیا تھاوہ خواب کیا تھا؟ وہ خواب یہ تھا کہ ایک ایسی ہئیت حاکمہ کا قیام جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسوئہ حسنہ اور سنت کو ہر قدم اور ہر پہلو سے حقیقت کا جامہ پہنایا جا سکے”(ہم نے پاکستان کیوں بنایا صفحہ 27)۔ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق اور ان کا اجتماعیت کی حامل زندگی بسر کرنا ہی ان کا امتیاز اصلی ہے اسی سلسلہ میں چند علماء مفکرین کے اقوال نقل کرتا ہوں۔ مسلمانوں کے اندر برادرانہ مساوات اور دلوں میں اتحاد و ہم آہنگی کے جذبے کو فروغ دینے کے سلسلے میں نماز باجماعت کی مصلحتوں پر برصغیر کے عظیم سیرت نگار سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ یوں رقم طراز ہیں کہ ”جماعت کی نماز مسلمانوں میں برادرانہ مساوات اور انسانی برابری کی درسگاہ ہے۔

یہاں امیر و غریب، کالے گورے، رومی و حبشی، عرب و عجم کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ سب ایک ساتھ ایک درجہ اور ایک صف میں کھڑے ہو کر خدا کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں۔ یہاں شاہ وگدا اور شریف و ذلیل کی تفریق نہیں، سب ایک زمین پر ایک امام کے پیچھے ایک صف میں دوش بدوش کھڑے ہوتے ہیں اور کوئی کسی کو اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا”(سیرة النبی، جلد 5صفحہ 572) اسی حقیقت کو علامہ اقبال نے یوں آشکارا کیا ہے کہ: ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز برصغیر کے عظیم خطیب و ادیب حضرت مولنا ابو الکلام آزاد رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ”دنیا کے تمام رشتے، عہد، مودت، خون و نسل کے بندھے ہوئے پیمان و فاومحبت ٹوٹ سکتے ہیں مگر چین کے مسلمانوں کو افریقہ کے مسلمانوں سے، ایک عرب کے بدو کو تار کر کے چرواہے سے اور ہندوستان کے ایک نو مسلم کو مکہ مکرمہ کے صحیح النسب قریشی سے جو رشتہ پیوست و یک جان کرتا ہے۔ دنیا میں کوئی طاقت نہیں جو اسے توڑ سکے اور اس زنجیر کو کاٹ سکے جس میں خدا کے ہاتھوں نے انسانوں کے دلوں کو ہمیشہ کے لیے جکڑ دیا ہے۔

Allama Iqbal

Allama Iqbal

شاعر مشرق مصور پاکستان علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ”جو کچھ قرآن حکیم سے میری سمجھ میں آیا وہ یہ کہ اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح کا داعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کی قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے”(حرف اقبال صفحہ نمبر 222)علامہ کے نزدیک مقصد تخلیق انسان، نظام اجتماعیت کے قیام اور اجتماعیت کا نظام صرف اور صرف دامن اسلام سے حاصل ہوتا ہے۔ خطبہ الٰہ آباد کے موقع پر علامہ ہندوستان میں مسلم قومیت کے بقاء کے لیے فرماتے ہیں”اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے اور وطن پرستی، بت پرستی کی ایک صورت ہے۔ ہر چند کہ حب الوطن کو مذموم متصور نہیں کیا گیا کیوں کہ انسان کی تخلیق اسی مٹی سے کی گئی ہے جس سے پیار ایک فطری امر ہے لیکن جب یہ امر وحدت ملت کی راہ میں سدراہ ہو تو قطعاً قابل تسلیم نہیں ہے۔

محمد رفیق افضل گفتار اقبال کے صفحہ 178 پر قول اقبال لکھتے ہیں ”اسلام ایک عالم گیر سلطنت کا یقینا منتظر ہے جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہوگی، جس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہوں اور سرمایہ داروں کی گنجائش نہ ہوگی۔ دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کردے گا ۔غیر مسلموں کی نگاہ میں شاید یہ محض ایک خواب ہو لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے”علامہ نے وحد ت اور اجتماعیت ملت کی اہمیت پربے پناہ اشعار تحریر کیے ہیں۔ علامہ ایک شعر میں فرماتے ہیں …!
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
تجاویز: مسلمانوں کی اجتماعیت کیسے قائم ہو سکتی ہے اس پر چند تجاویز پیش خدمت ہیں: اول : مسلم امت کو چاہیے کہ اصول دین اور فروع دین میں فرق کریں۔

اصول دین پر اگر اختلاف واقع ہو جائے تو اس پر اجتماعی رائے قائم کرنی چاہیے رہی بات فروع دین میں اختلاف کے واقع ہونے کی تو یہ اختلاف اچھا ہے تاکہ معاشرے کے اہل علم ایک مسئلہ کے حل کو مختلف طور و طریقوں سے بیان کریں۔ البتہ یہ اختلاف ایک دائرہ میں محدود رہنا چاہیے اختلاف کو اختلاف تنوع بنایا جانا چاہیے نہ کہ اختلاف تضاد اور افتراق کی حدوں کو چھونا شروع کر دے۔ ثانی : ملک پاکستان میں تمام مسلکی بنیادوں پر موجود اختلافات کی بنیاد پر کسی کو کافر، مشرک یا واجب القتل قرار دینے کی روایت کو ختم کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ اختلاف جوکہ اہل علم کے علم کو زنگ آلود ہونے سے بچاتا ہے اس اختلاف کو علمی، تحقیقی مجالس تک محدود کیا جائے کیوں کہ عامة الناس ان فروعی اختلافات کی حقیقت کو جانے بنا آپس میں حد بندیاں کر لیتے ہیں جس سے معاشرے میں بد امنی و فساد اور عدم برداشت کا رواج فروغ پاتا ہے۔

ثالثا: حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام اہل علم کو یکجا کر کے ان سے بین المسالک ہم آہنگی کی فضا پیدا کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ یعنی ان امور پر دقت نظر رکھے کہ جن کے سبب اختلاف، اختلاف تضاد تک پہنچ جاتا ہے مثلاً دوسرے مسالک کے اکابرین کے خلاف زبان و بیان اور تحریر کے ذریعے تضحیک و تحقیر کرنا شامل ہے۔ ہمارے معاشرے میں چونکہ قومی و لسانی بنیادوں پر بھی تقسیمات موجود ہیں اس لیے حکام وقت پر یہ امر بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ ملک پاک میں تفاوت و تفاخر اور بالاتری کو ختم کرنے لیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قانون سازی کرتے ہوئے عدل و انصاف، مساوات اور بھائی چارگی پیدا کرے، وسائل کی دیانت داری پر مبنی تقسیم کرے، تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات یکساں طور پر ملک کے سب باسیوں کو فراہم کرے۔ تاکہ اس خطے کا کوئی فرد یا قوم و ذات احساس کمتری کا شکار ہو کر نت نئے طریقے اور نعرے سے گروہ بندی نہ کر سکے۔

HAzrat Muhammad (S.A.W.W)

HAzrat Muhammad (S.A.W.W)

رابعاً: موجودہ دور میں میڈیا کی اہمیت سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں رہا اس لیے لازم ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا معاشرے میں اتحادو اتفاق پیدا کرنے والی سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں۔ جن امور سے معاشرے میں تفریق جنم لینے کا یقین یا اندیشہ ہو اس کو میڈیا بریکنگ نیوز بنانے سے احتراز کرے۔ خامساً: علماء اسلام پر لازم ہے کہ وہ معاشرے میں اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کی ترغیب و دعوت دیں اور عوام کو فروعی اختلافات میں الجھانے کی بجائے ان کو اصول دین اور عامةالناس کے حقیقی مسائل کی صحیح معنوں میں تعلیم دی جائے اور پھر بھی اگر اختلاف کے واقع ہونے کا اندیشہ ہو تو اس پر برداشت و صبر کی تعلیم دی جائے۔ سادساً: اتحاد و اتفاق کے جو واحد مصدر ہیں وہ کتاب و سنت اور علماء المسلمین کے وہ اجتہادات بھی ہیں جو قرآن و سنت سے متصادم نہ ہوں۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمان ہے کہ ”تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفا راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔

اسے مضبوطی دانتوں کی سختی کے ساتھ سے تھام لو اور (دین میں)نئے نئے کاموں سے احتراز کرو ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے (سنن ابی داوئود، باب فی لزوم السنة)اس سلسلہ میں کتاب و سنت میں اور بھی بہت سے نصوص وارد ہوئے ہیں، چناچہ اہل سنت والجماعت کا طریقہ اور دستور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو مکمل طور پر اختیار کرنا ہے اون کو قائم رکھے یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ پر عمل کرتے ہوئے دین کو قائم رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک اور مقام پر اہل سنت والجماعت کی نشانی بیان فرمائی ہے کہ وہ لوگ میرے اور میرے صحابہ رضی اللہ تعالی عنھا کے نقش قدم پر چلیں گے۔ اسی روایت کی روشنی میں شاید علامہ نے فرمایا تھا
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
آخری بات خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام دین وحدت ہے اور نبی مکرم کی بعثت کا مقصد بھی ایک اعلیٰ اخلاق و صفات کا حامل اجتماعی معاشرہ تشکیل دینا تھا۔

ہر فرد اپنے آپ پر دوسروں کے فرائض کی اہمیت کو جانے اور اپنی ذمہ داریوں میں کسی طور پر بھی کوتاہی سے کام نہ لے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے بلکہ اجتماعیت ہے کوئی فرد تنِ تنہا پنپ نہیں سکتا کیوں کہ اس کے مختلف کردار ہیں مثلاًباپ، بیٹا، بھائی، داماد، پڑوسی، استاد اور حاکم وغیرہ ……! اس لیے ان تمام کرداروں کو دیانت داری سے ادا کرنا ہر عاقل و بالغ اور باشعور پر لازم ہے۔ جیساکہ اقبال نے معاشرے میں موجود ہر فرد کے کردار کو اہم کہا اور فرمایا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
امت میں علمی نوعیت کے فروعی اختلافات نے موجود رہنا ہے جبکہ ایسا شریعت میں قابل مذمت بھی نہیں بلکہ یہ امر قابل ستائش ہے۔ لہٰذا علمی نوعیت کے فروعی اختلافات کو اختلافی حدود میں میں رکھتے ہوئے تنازع کی جانب لے جانے سے احتراز کیا جائے۔ اگر خدانخواستہ، خاکم بدہن ماسبق میں بیان کردہ باتوں کو سنجیدہ نہ لیا گیا تویہ ملت یونہی منقسم ٹکڑوں میں بٹی رہے گی اور ذلت و رسوائی اب کی طرح اس ملت کا مقدر رہے گی۔

Atiq-Ur-Rahman

Atiq-Ur-Rahman

تحریر : عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com