میری دنیا میری مرضی

Pray

Pray

تحریر : شاہ بانو میر

عربی سے پڑھا
قرآن ہمارے بزرگوں کی ایک روایت ہے کہ
ماہ رمضان میں کھلا یہ قرآن ایک حرف کے بدلے دس نہیں
ستر نیکیاں دے گا
لہٰذا
عمر بھر یہی آوازیں سنائی دیتی رہیں
میں نے ماشاءاللہ اتنے قرآن پڑہے
اور
دوسری جانب سے آواز میں فخر اس پہلی آواز سے زیادہ ہوتا ہے
کیونکہ
قرآن کی تعداد ان سے زیادہ ہوتی ہے
دوسرا اہم کام ہم اس قرآن پاک سے جو لیتے ہیں
وہ ہے
اس کو فوتگی پر پڑہنا
نگاہیں کہیں اور دیکھ رہی ہیں
ایک آیت کو کتنی مرتبہ توڑ کر
ساتھ والی سے ارد گرد کے معاملات پوچھے
کتنی بار عذاب کی آیت پر آنسوؤں کی بجائے
دروازے میں داخل ہونے والی نئی ہستی کو سلام کئے
کہاں ڈرنا تھا
اللہ سے پناہ مانگنی تھی
کہاں خوف الہیٰ سے ہچکیاں لگنی تھیں
کیسے ممکن ہوتا؟
سمجھ میں کلام مبارک آتا تو ایسا ہوتا
نتیجہ نہ دلوں کی سختی نرمی میں بدلی
اور
نہ قرآن سے ہم نے درد دل حاصل کیا
اس کو بھی غریبوں سے چھین کر
ہر دینی پروگرام میں امراء کیلئے اولیت قرار دے کر
ان کے لئے فرنٹ سیٹس وی آئی پی سیٹس کا اہتمام ہونے لگا
لگژری ہال میں زمین پر بیٹھنے والے نبی پاکﷺ کا قرآن پڑہایا جانے لگا
وہ کلام جسے پہاڑ پے اتارا جاتا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے
وہ آج دل پر اثر کئے بغیر کیسے تکمیل پا رہا ہے ؟
کیونکہ
دولت کی چکاچوند نے یہاں بھی پنجے گاڑ لئے
غرباء اور امراء کا واضح فرق اس کی تعلیم میں بھی دکھائی دینے لگا
تو تاثیر کہاں سے آتی؟
عذاب رحمت میں کیسے بدلتے
جب ہوس دنیا امراء کے ساتھ دین کو کسی اور ڈھنگ سے پیش کرے
اور
غرباء کیلئے بیٹھنے سے سمجھانے تک رویّہ ہی بدل جائے ؟

یہ بے عمل دل کیسے فر فر بغیر قوموں کی بربادیوں کے قصوں پر
روئے آگے بڑہتے چلے جاتے ہیں
بیٹا بیٹی پڑھ پڑھ کر بیسیوں سال لگائیں تو ماں تعریفوں کے پل باندھتی نہیں تھکتی
کہ
اتنے سال کی محنت کے بعد ڈاکٹر انجینئر بنا
لیکن
وہ کتاب
جس نے اس ڈاکٹر انجینئر کو مادیت پرستی کی حدود سمجھانی تھیں
دنیا دھوکہ ہے
عارضی قیام گاہ ہے
یہاں کچھ حاصل کرو تو دولت کا حصول نہ بناؤ
بلکہ
اپنے والدین کی پرورش کے صلے میں
اپنی تعلیم سے اپنے خالق یعنی
اللہ کی ذات کی بڑائی کو اور بہترین انداز سے جانو
اس کی عطا کو اپنا انعام نہ سمجھو
بلکہ
اس کی مخلوق پر
اگر اس انعام کو استعمال نہ کیا
تو یہ آزمائش بن جائۓ گی
قرآن مجید پڑہنا اور پھر ترجمے سے پڑہنا
انسان کو خوف میں مبتلا کرتا ہے
کہاں پکڑ ہو سکتی ہے
کہاں غلطی کر کے ابلیس بن کر انسان اکڑے اور
اللہ کی رحمت سے دور ہو
اگر
اس قرآن مجید کو پڑھ کر وہ بھی ترجمے سے پڑھ کر
انسان میں ارد گرد کا خیال نہیں جاگا
اگر
اس کو درد اور تکلیف کی شدت بتانی پڑتی ہے
اس کی سوچ اسی پر خوش ہے
کہ
اس نے قرآن پر قرآن مکمل کر لئے
اور
مرتی انسانیت کیلئے درد کی رمق بھی نہیں جاگی
تو
یاد رکھیں
اس پڑہنے اور پڑہانے میں میں کہیں کوئی کاروباری سوچ ہے
وہ سوچ جس نے اس کے ہر حرف میں چھپا
انسانیت کا پیغام بہتر انداز میں آپ تک نہیں پہنچایا
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کیلیۓ کم نہ تھے کّرو بیاں
آج جس بحران سے اور معاشی گھمبھیر مسائل سے
دنیا کی معیشت گزر رہی ہے
ایسے میں صرف جنوبی ایشیا یا دیگر ممالک میں ہی نہیں
بلکہ
ہمارے گردو پیش خواہ وہ یورپ ہو یا امریکہ
بہت سے لوگ ایسے ہیں
جنہیں کہنے کی نہیں
ہمارے محسوس کرنے کی ضرورت ہے
ہم اسی میں مست ہیں خوشیاں منا رہے ہیں
پھولوں کے گلدستے بھیج رہے ہیں
ایک لحظہ سوچیں
وہ بھی شائد یہیں کہیں موجود ہوں
جو اس خوشی کے بے پناہ اظہار پے
سکرین پر ہوتی گلدستوں کی بارش اور پھولوں کی برسات
میں اپنے آنسوؤں سے چہرے بھگو رہے ہوں
کیسی خوشی کیسا انعام
کیسی سیلیبریشن
جب موت چار سو سراپا رقصاں ہے ؟
جب حامل القرآن کو چاہیے تھا
کہ
اپنے رب ذوالجلال کے آگے اشک ندامت سے
اس ہدیہ کو پیش کرتے ہوئے اسی کے واسطے سے
انسانیت اور امت کیلئے پناہ طلب کرتے
کس وقت اور کس قیمت پر یہ خوشی ملی؟
قبولیت کی مہر
لاشوں کے انبار پر لگنی چاہیے تھی؟
کہاں سقم ہے کہاں کمی ہے

اپنے دل کو ٹتولیں
کیا حاصل کیا اور کس وقت حاصل کیا
ایسے وقت میں کچھ مکمل ہو بھی جائے تو
کیا
گھر گھر ماتم اور خوف کی اس فضا میں
اسلام اپنی خوشی دوسروں کی چیخوں کے شور میں گلدستوں
سے منانے کا حکم دیتا ہے
لِلہ
اس قرآن سے وہ لیں جس کیلئے یہ قرآن اترا
اسکو کاروباری نقطہ نگاہ سے پھیلائیں گے تو
پھر
وہی ہو گا جو آج ہوا
کاروبار ٹھپ
مظاہرے ختم
اب خالص اور کھرا دین صرف
اللہ کیلئے
آج سوچنے کا مقام ہے
کیسی عبادتیں کیسی ریاضتیں کر بیٹھے ہم؟
کیا تھا ان کے پیچھے ؟
اخلاص یا کاروبار ؟
دین کی سادگی کو
جس طرح توڑ موڑ کر کاروبار بنایا گیا
اس قدرت والے نے
ایک ہی لمحے میں اٹھا کر
ساری ریاضتیں ساری عبادتیں کیسے منہ پر دے ماریں
دوسرے کو اٹھانے کی دینی سیاست ختم
کائنات کے ہر گوشے سے یہی صدا آ رہی ہے
“”میری دنیا میری مرضی “”
میں رب الرحیم ہوں
میرے ہاں قبولیت اخلاص کی ہے
جاؤ محنت کرو اور بڑہاؤ اپنے اخلاص کو
محنت کرو
سوچو
سفر ہو قرآن کا
اور
ایسی بے حسی ایسی لاتعلقی ارد گرد سے ؟
امت مسلمہ
کہاں گم کر دیا
قرآن کے عظیم سفر میں انسانیت کے درد کا سبق
شہید ہو گئے پیاسے چلے گئے
احساس سے لبریز کے پانی پہلے
فلاں ساتھی کو پلاؤ کو پلا دو ٌ
یہ تھا تمہارا اصل
تمہارا دین
انسانیت اور ہمدردی کا احساس کا
کچھ روز پہلے غریب بوڑھی
مختلف فلاحی تنظیموں کی جانب سے اوپر تلے
خوراک ملنے پر
اس برے وقت کو “”عید””کہہ رہی تھی
اور
کہیں قرآؤ پڑہے جا رہے مکمل کروائے جا رہے
موجودہ آسیبی ماحول میں بے خوفی سے
ایک دوسرے کی خدمات کو خوب سراہا گیا
مبارکبادیں دی اور لی گئیں
کیسا اور کس سے پڑھا
کہ
فضا میں رچی لاشوں کی بُو
انکی خوشی کو کم نہ کر سکی
گنے چنے سلیکٹڈ لوگوں کی یہ محفل
خوشیاں اور سیلیبریشن بھی سلیکٹڈ
بہت سے انہی کے ساتھی
پژمردہ نگاہوں سے خوشیوں کی برسات کو
پھولوں کی صورت اترتے سکرین پر دیکھ رہے تھے
آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے
وجہ تھی
کمانے والے سب گھر میں
کام نہ کاج
کھانے والے کئی
ایسے کڑے وقت میں وہ دعا کی امید پر شامل ہوئے
رقت آمیز دعا سننے کوملے گی
آمین کہنے کو ملے گی
جو اس آفت کو
اس عذاب کو ہٹانے کا موجب بنے
سوچیں
اس ماحول میں خوشیاں اور مسکراہٹوں کے تبادلے
کیا حامل القرآن کر سکتے ہیں؟
فرشتوں سے بہتر ہے انساں ہونا
مگر
اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر