متحدہ عرب امارات میں پاکستانی کپڑا تیار شدہ ملبوسات کڑھائی والے ڈیزائن دار خواتین کے جدید لباس،

Pakistan fabric

Pakistan fabric

متحدہ عرب امارات میں پاکستانی کپڑا تیار شدہ ملبوسات کڑھائی والے ڈیزائن دار خواتین کے جدید لباس، شادی کے موقعوں پر پھنے جانے والے زرق برق لباس آجکل یھاں بے حد مقبول ھورھے ھیں نہ صرف پاکستانی خواتین بلکہ ھندوستانی اور مقامی عرب خواتین کے علاوہ مغربی ممالک کی خواتین بھی پاکستانی ملبوسات شوق سے پھنے لگی ھیں۔

متحدہ عرب امارات میں رھنے والی پاکستانی اور دیگر ممالک کی خواتین تو یھاں کے شورومز، سلائی کڑھائی کی شاپس، ڈریس ڈیزانرز یا ریڈی میڈ ملبوسات کی دوکانوں پر جاکر اپنی پسند کے کپڑے اور ڈایزئن منتخب کرتی ھیں جبکے امارات سے باھر کی خواتین جو د نیا کے مختلف ممالک میں رھتی ھیں۔

وہ ویب سائٹ کے زریعے یا بزریعہ ای میل رابط کرکے اپنی پسند کے کپڑے انتخاب کرتی ھیں اور مرضی کے ڈایزئن بنواتی ھیں پاکستانی ملبوسات کو متحدہ عرب امارات میں یوں توسے کوگوں نے متعارف کرایاھے لیکن باقاعدہ انداز سے نگھت غیورنے پاکستانی ملبوسات یھاں متعارف کرائے اس مقصد کے لئے أنھوں نے گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستانی ملبوسات کی متعد و بار نمائش منعقد کی جس میں پاکستانی کمیونٹی کے علاوہ دیگر ممالک کے لوگوں نے بھی بھر پور شرکت کی اور پاکستانی ملبوسات کو بے حد پسند کیا۔

نگھت غیور نے مبئی میں مسلسل 25 سالہ بطور معلم اپنے فرائض انجام دیے ھیں جبکے ساتھ أنیوں پاکستانی ملبوسات کو بھی متعارف کرانے میں خوب کام کیا ھے پاکستانی ملبوسات سمندر پار متعارف کرانے کے سلسلے میں نگھت غیور نے تن تنھاکام کیا ھے اور اکیلے ھی تمام نمائشیں منعقد کی میں ان کا پھلاایگزی بیشن 2006 میں ھوا۔

جبکے حال ھی میں اُنیوں نے ایک نمائش کا اھتمام شارج میں کیا جس کا افتتاح قونعلیٹ آف پاکستان مبئی کے جنرل طارق اقبال سومرو نے کیا 2006 سے لے کر 2013 تک متعد و ایگزی بیشن منعقد کر کے پاکستانی ملبوسات کو متحدہ عرب امارات میں ایک مقام دلانے والی باھمت خاتون نگھت غیورکا تعلق کڑائی سے ھے۔

سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہ اپنے شوھر کے ھمراہ مبئی آگیئں جبکہ گریجویشن کے دوران ھی أنیوں نے کراچی۔ (دھنک،کے نا) سے بوتیک کھولا اور اپنے بچپن کے شوق کی آبیاری کی۔ ڈایزائننگ کی تربیت اور فن انھیں اپنے والد سید و ضاحت مین کی طرف سے ورثے میں ملا جو خود بھی انٹریزہ ڈایزئنر تھے۔ نگھت غیوز نے سات سال قبل مبئی کی ٹیکٹ ٹائل مارکیٹ میں بزنس کا آغاز کیا اور پاکستانی ملبوسات اور خوبصورت ویدہ زیب ڈیزائن متعارف کروائے نگھت غیور نے عرب عورتوں کے لباس عبایا کو خاص جدت دی اور خوبصور ت ایمبرائیڈری سے سجا دیا۔

جس سے عرب خواتین میں ایمبرائیڈری والے عبایا بے حد مقبول ھو گئے اس کے بعد أنیوں نے وسٹرن ڈایز پر بھی خوب تو جہ دی اور پاکستانی عربی اور ویسٹرن ڈریسں ڈیزائنرکے طور پر اپنی پھچان کروی ملبوسات کویکجا کرکے خصوصی مکس سٹائل بھی تیار کئے جو عربی خواتین میں بے حد مقبول ھوئے نگھت غیور ایک باھمت خاتوں ھیں جینوں نے سکول کے جاب، بچوں کی زمہ داری۔ گھر گرھتی اور بزنس انتھائی زمہ داری کے ساتھ نبھائی گزشتہ سالوں کی انھتک محنت کے بعد آج نگھت غیور اس مقام پر کوئی میں کے انھیں امارات میں پاکستان کی پھچان کھا جا تا ھے۔

خود تو وہ اھے لائف سٹائل سے رہ رھی میں اس بڑھ کریہ کے وہ 28 خاندانوں کی کفالت بھی کر رھی میں ان کی فیکٹری میں 28 سے زائدہ ورکرمو جود میں جن کا روزگار نگھت غیور کے کاروبار سے وابستہ ھے لباس کی تراش خراش، سلائی کڑھائی اور مارکیٹنگ جیسی زمہ داریاں وہ خود نبھا رھی ھیں نگھت غیور پاکستانی خواتین کے لئے مثال ھیں جو ملک و قوم کی نیک نامی کے لئے کام کر رھی ھیں اورپاکستانی پراڈکٹس کو بیرون ملک کی مارکیٹ میں متعارف کرا رھی ھیں۔

ایک ملاقات کے دوران نگھت غیور نے بتایا کہ وہ کپڑا بھی پاکستان کا استعمال کرتی ھیں اور ایمبرائیڈری کے لئے استعمال ھونے والا سارا میٹریل بھی پاکستانی ھے جبکہ وہ گاھک کو بڑے فخریہ انداز میں بتائی ھیں کہ یہ پراڈکٹ خالصتا میڈ ان پاکستانی ھے جبکے ابھی چیز دیکھ کرگاھک بھی بخوشی چیز خرید تے اورپسند کرتے ھیں۔ نگھت غیور نہ صرف خواتین کے ملبوسات میں اپنا نام رکھتی ھیں۔

اب سکول کے بچوں کے لئے یونیفارم اور ورکرز کے لئے خصوصی لباس بھی تیار کررھی ھیں ان کا کھنا ھے کہ پر پاکستانی خاتون کو با ھمت ھونا چاھئے اور بیرون ملک فارغ رھنے کی بجائے وقت نکال کر کوئی کام کرنا چاھئے جس سے( ان کی آمدن بڑھے گی اور پاکستان کا کام) بھی بلند ھو گا جبکے پاکستان کی مصنوعات بیرونی ممالک میں
وفعت ھونے سے پاکستان کو بھی معاشی فائیدہ پھچے گا۔