8 ستمبر یوم نفاذ اردو

Urdu

Urdu

تحریر : عتیق الرحمن

پاکستان کو معرض وجود میں آئے ستربرس بیت چکے ہیں۔ قیام پاکستان کی تحریک ہو یا تحریک آزاد جو بھی نام ہو اس میں مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کا مطالبہ اس لیے کیا گیا تھا کہ انگریز کے انخلاء کے بعد ہندوستان کی صورتحال پیچیدہ اس لیے ہوجائے گی کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف جو غلاظت و میل پڑچکی ہے وہ دور نہیں ہوپائی جس کی بدولت انہوں نے ہندوباوجود اس کے کہ وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ شریک تھے انگریز کو ہندوستان سے بے دخل کرنے کی جدوجہد میں تاہم وہ سیاسی بصیرت و مفاد پرستی اور نفاق کو اختیار کرتے ہوئے انگریزوں کے ہمنوا بن بیٹھے اور انگریز نے ملک میں تمام اہم عہدوں پر ہندوں کو ہی تفویض کررکھا تھا۔یہ بات قرین قیاس ہی نہیں بلکہ یقینی تھی کہ انگر یز انخلاء کے بعد تمام تر طاقت و قوت اور خطہ کی سربراہی ہندوں کے ہاتھ میں دیدے گا۔دوسری جانب ہندوئوں کا مسلمانوں کے ساتھ برتائو مبنی بر حقارت تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ وابستہ ہر چیز سے نفرت کا اظہار کرنے لگے یہاں تک کہ وہ مسلمان جنہوں نے خطہ برصغیر پر اپنا سب کچھ قربان کرکیاس کو معاشی و معاشرتی، تہذیبی و ثقافتی ،تعمیر و ترقی کے لحاظ سے اور ہندوستان کی قوموں کے درمیان الفت و محبت پیدا کرکے برابر سب قومیتوں کو مقام و مرتبہ دیا تھا۔اس سب کچھ کو ہندوفروگذاشت کرکے مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو دین برحق اور مسلمانوں کی زبان کے درپے ہوگئے اسی سلسلہ میں شدھی و سنگھٹن کی تحریکیں بپاہوئیں۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں نے اپنی جان و مال عزت و آبرو اور دین و زبان کی حفاظت کے لیے تحریک کا آغاز کیا جس میں بنیادی نعرہ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ۔یعنی اللہ کے علاوہ ہر ایک کی برتری کو مسترد ہی نہیں کیا گیا بلکہ اللہ کے برابر بھی کوئی نہیں ہوسکتا اس کا اظہار ببانگ دہل کیا جاتارہا۔تحریک آزادی یا تحریک پاکستان کامیابی سے ہمکنار ہوگئی تو ضرورت اس امر کی تھی اس میں موجود تمام اکائیوں کو باہم متحدرکھنے کے لیے مذہب اور زبان کا اعلان کیا جائے۔ چنانچہ قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری 1948ء میں کابینہ کی منظوری سے مشرقی و مغربی پاکستان کی قیادت کی موجودگی میں اردو کو بطور قومی زبان اختیار کرنے کا اعلان کیا۔اس کے ساتھ ملک کے آئین و قوانین کو اسلامی سانچہ میں ڈھالنے کے لیے علامہ اسد،علامہ سیدسلیمان ندوی ،علامہ شبیر احمد عثمانی سمیت درجنوں علماء پر مشتمل بورڈ قائم کیا گیا جس کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ ملک کے اسلامی ہونے کے جو تقاضے و ضروریات ہیں ان کو مرتب و مدون کریں۔ چنانچہ قراردادِ مقاصد اسی غرض سے تیار کی گئی جس کو متفقہ طورپرمنظور کیا گیا۔اور اعلان کیا گیا کہ اب کے بعد ملک میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بنایاجائے گا۔

دکھ کی بات ہے کہ ملک پاک کی اساسی و بانی قیادت کی جانب سے وضع کردو اور مقررہ اصولوں کو کھوکھاتے ڈالتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی صریح مخالفت پر مبنی قانون سازیاں بھی کی جاتی رہیں اور عملی طورپر اسلام شریعت کو ملک میں بالادستی دینے کی بجائے انگریزکے بنائے گئے قانون کو عدالتوں میں آج تک جاری رکھا ہواہے۔بعینہ اسی طرح قومی زبان اردو کے ساتھ بھی سوتیلا پن کا سلوک کیا گیا باوجود اس کے بنگلہ دیش کے پاکستان سے علیحدہ ہونے کا محرک ایک قومی زبان کا مسئلہ بھی تھا ۔بنگلہ دیش کے جداہوجانے کے باوجود اب تک پاکستان میں قومی زبان کو اس کا جائز مقام نہیں دیا جارہا۔پاکستان کے تینوں دساتیر میں یہ بات واضح طورپر درج ہے کہ قومی زبان اردو ہوگی اور اس کو تعلیمی و قانونی اور دفتری سانچے میں ڈھالنے کے لیے پندرہ سال تک کام کیا جائے گا اور تب تک انگریزی دوسرے زبان کے طورپر اضطراری حالت کی وجہ سے قائم رہے گی تاہم اردو کو بتدریج نافذ کرنے کا کام برابر جاری رہے گا۔ اس سلسلہ میں بہت سے ادارے بھی قائم کیے گئے مقتدرہ قومی زبان ،ادارہ فروغ قومی زبان،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور دیگر اداروں نے شب وروز ایک کرکے دفتری و قانونی اور تعلیمی زبان کے طورپر نافذ کرنے کے لیے نصاب مرتب کیا لیکن ملک پر قابض و حکمرانی کرنے والیے حکومت اور بیوروکریسی جو انگریز کی کاسہ لیس اور ملک کے سرمایہ دار، و جاگیردار اور وڈیرہ شاہی طبقوں کے لوگ ہیں نے اردو کو ملک میں نافذ العمل ہونے میں روکاوٹ بنے رہے۔

2002ء میں محترم کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی جانب سے عدالت میں قومی زبان کے نفاذ می پہلو تہی کو انحراف آئین تصور کرتے ہوئے درخواست دائر کی جس پر عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ایس جواد خواجہ نے2015ء میں فیصلہ سنایاکہ حکومت فی الفور اردو کو عملی طورپر اختیار کرتے ہوئے قانونی و دفتری اور تعلیمی زبان کے طورپر رائج کردے۔ تمام قومی اداروں کی ویب سائیٹ و درخواستیں قومی زبان میں وصول کرنے اور منتقل کرنے کا حکم بھی عدالت نے دیا۔آج پانچواں سال ختم ہونے کوہے کہ اب تک عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ کو نافذ نہیں کیا گیا باوجود تبدیلی سرکار کی جانب سے قومی و ملی جذبوں کے چکنے چپڑے نعروں کے اب تک قومی زبان عزت و عظمت اور جائز مقام سے محروم ہے۔

پاکستان کا ایوان بالا سینٹ بھی متفقہ قرارداد منظور کرچکا ہے کہ ملک کا اعلیٰ امتحان سی ایس ایس قومی زبان میںدینے کی سہولت فراہم کی جائے۔ابھی حال ہی میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں کامیاب ہونے والوں کی شرح ایک فیصد بھی نہ پوری ہوئی ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں تعلیم نظام متصادم ہے مدارس، سرکاری سکول،پرائیویٹ سکول،اے لیول اور او لیول کی تقسیم کی بدولت ملک کا معاشرہ بھی اسی طرح باہم متصادم و منقسم ہے۔اور انگریزی کو چہارجانب سے بالادستی دینے کی کوشش کی وجہ سے بہت سے امیدوار قومی و صوبائی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات میں ناکام ہوجاتے ہیں۔موجود حالات کی ضرورت اور تقاضہ ہے کہ قومی زبان کو فی الفور نافذ کیا جائے تاکہ ملک جو معاشی و معاشرتی ہبوط کی کیفیت سے دوچار ہے باہر نکل کر ترقی کی شاہراہ پر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ اسی سلسلہ میں تحریک نفاذ اردو پاکستان نے 8ستمبر 2019کو یوم نفاذ اردو کے طورپر منانے کا فیصلہ کیا ہے اور ملک بھر میں قومی زبان کو عزت دلانے کے لیے ڈیڑھ کروڑ دستخط ملک کے تمام نمائندہ طبقوں سے کرانے کا فیصلہ بھی کیا ہے تاکہ عدالت عالیہ اور حکومت وقت پر یہ باور کرایا جاسکے کہ عوام قومی زبان کو اپنے وطن میں باعزت دیکھنا چاہتی اور اس کے ذریعہ ملک و ملت کی ہمہ جہتی میادین علوم و فنون میں ترقی کی منازل طے کرنے کا عزم و ارادہ رکھتی ہے۔

Atiq ur Rehman

Atiq ur Rehman

تحریر : عتیق الرحمن