چلو پھر لوٹ کر بچپن میں چلتے ہیں

Childhood

Childhood

میں اپنے ایک دوست کو ملنے گیا شاندار دفتر کا دروازہ بند ۔۔باہر اردلی بیٹھا” صاحب ”کے ملنے والوں کو بتا رہا تھا آج ملاقات نہیں ہو سکتی صاحب کا کہناہے مجھے کوئی بھی ڈسٹرب نہ کرے ۔۔حتیٰ کہ وہ فون بھی نہیں سنیں گے انہوںنے دروازہ بھی اندرسے بند کررکھاہے ۔ میں نے سوچا نہ جانے میرے یارخالد سندھو پر کون سی قنوطیت طاری ہوگئی ہے اتنا خوبصورت بندہ ۔۔اس عمر میںمردم بیزار سا ہو جائے کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔۔۔میںنے سوچا فون نہیں سننا کوئی بات نہیں موبائل تو ٹرائی کیا جا سکتاہے نمبر ملاکرکانوں سے لگایا ۔۔موصوف نے بے تابی سے پوچھا یار کہاں ہو۔۔۔

تمہارے دفتر کے دروازے سے لگا کھڑا ہوں۔۔۔ اندر کیوں نہیں آتے۔۔۔تمہارے ”افسر”کا کہنا ہے دروازہ اندرسے بندہے ویسے کیا خودکشی کرنے کا ارادہ ہے کیا؟۔۔دروازہ کھلاہے وہ تو میںنے اسے ایسے ہی کہہ دیا تھا آبھی جائو۔۔۔ میںنے دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا کھلتے ہی میں اندر اور اردلی روکتا رہ گیا۔ اندرکا منظر دیدنی تھا ان کے ہاتھ میں ایک کیوٹ، گول مٹول پیارے سے بچے کی تصویر تھی جسے دیکھ کروہ خوش ہورہے تھے مجھ پر نگاہ پڑتے ہی حاجی خالد سندھو اٹھے بغلگیرہوئے لیکن میں نے محسوس کیا ان کی توجہ کا محور اب بھی میزپر پڑی تصویر ہی ہے میرے پوچھنے سے پہلے ہی اس نے سوال کرڈالا جانتے ہو یہ تصویر کس کی ہے۔۔

میں نے نفی میں سرہلایا ۔۔۔یار تم اسے جانتے ہو۔۔۔میںنے تو زندگی میں پہلی بار اس تصویرکو دیکھاہے ۔۔۔اچھا ۔۔۔ چلو بتا دیتاہوں یہ تصویر میرے بچپن کی ہے جانتے ہو جب بھی میں اداس ہوتاہوں اس تصویرکو دیکھتا رہتاہوں اور یہ تصویر مجھے کہتی ہے بچپن کے دن بھلا نہ دینا۔۔۔۔ہم نے کبھی سوچاہے بچپن کتنا خوب صورت ہوتاہے اس کا صحیح اندازہ بڑھاپے میں کیا جا سکتاہے جب بھی انسان کو تنہائی میسر آتی ہے وہ بچپن کی یادوں سے لطف اندوزہوتارہتاہے یہ یادیں بھی کتنی خوشگوار، پیاری اور حسین ہوتی ہیں یقینا اسے زندگی کا سنہری دور کہا جا سکتاہے فکر نہ فاقہ۔۔۔ عیش کر کاکا کے مصداق ان دنوں زندگی اتنی خوبصورت ہوتی ہے کہ کوئی مثال پیش ہی نہیں کی جا سکتی۔۔

چلو پھر لوٹ کر بچپن میں چلتے ہیں
کبھی میں چوربن جائوں،سپاہی بن کر ڈھونڈوتم
کبھی پٹھو گرم توڑیں اور ہنس کر بھاگ جائیں ہم
یا وہی کھیل جس میں آنکھ بند کرکے
بیٹھے کوئی اور چھپیں باقی
چلو پھر لوٹ کر بچپن میں چلتے ہیں
بنو تم دادی اماں اور بلائو اپنے بچوں کو
کبھی لڈو کا لالچ دو،کبھی سونے کے نکلس کا
خزانہ ڈھونڈنے کی چاہ میں تم کو پکڑ لوں میں
چلو پھر لوٹ کر بچپن میں چلتے ہیں

بہت دن ہوگئے اس بیکارسی دنیامیں اب رہتے ۔۔۔کہتے ہیں بچپن سب کو پیارا لگتاہے ۔۔شاید سب کا پیارا ہوتاہوگا لیکن وطن ِ عزیز پاکستان میں رہنے والے بچوںکی اکثریت کا کیا کیجئے جس میں کھیلنے، کودنے اور سکول جانے کی عمر کے کروڑوں بچے اپنے گھر والوںکو فاقوں سے بچانے کیلئے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں کبھی وہ سوتی جاگتی آنکھوں سے بے داغ یونیفارم پہنے بڑا سا بیگ اٹھائے سکول جانے کے خواب دیکھتے ہیں اور ان کی یہ خواہش دل ہی دل میں رہ جاتی ہے کرہ ٔ ارض پر پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں غربت کی شرح میں خوفناک حدتک اضافہ دیکھنے میں آرہاہے جس کی بنیادی وجہ امیر ۔۔ امیر ترین اور غریب بدترین غریب ہیں جس سے سٹریٹ کرائم، جسم فروشی، ڈکیتی، چوری اور دیگر جرائم مسلسل پھل اور پھول رہے ہیں۔۔

Meat

Meat

کسی کے کتے گوشت کھاتے ہیں تو کوئی بھرپور محنت مشقت کے باوجود اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی فراہم کرنے سے بھی قاصرہے کسی امیر بچے کے پاس کھلونوں سے بھرا پورا کمرا ہے تو کوئی بچہ دس روپے والے پلاسٹک کے کھلونے کو بھی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا گذرجاتاہے ماہرین ِ نفسیات کا کہناہے کہ غربت تمام جرائم کی ماںہے اس کی کھوکھ سے مجرم پیداہوتے ہیںیہ کتنی خوفناک بات ہے کہ غربت نے پیارے پیارے بچوں سے ان کی معصومیت چھین لی ہے تعلیمی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ملک نہ جانے کتنے انجینئروں، ڈاکٹروں، سائنسدانوں اور مختلف شعبوںکے ماہرین سے محروم رہ جاتاہے۔۔

یہی ہمارا المیہ، قومی سانحہ، تنزلی کی وجہ ہے اور ہمارے حکمران ہیں کہ انہوںنے کبھی سنجیدگی سے اس سنگین مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دی جس ملک میں VIPکی حفاظت کیلئے40ہزار اہلکار ڈیوٹی دے رہے ہوں،بیورو کریٹس، وزیروں اور وزراء اعلیٰ کیلئے ہر سال کروڑوںکی بلٹ پروق گاڑیاں امپورٹ کیا جانا معمول بن جائے اس پر کیا تبصرہ کیا ھا سکتاہے یہ لوگ اپنی حدسے بڑھ کراس ملک سے برا سلوک کررہے ہیں یہاںکے سیاستدانوںکی بے حسی، بیوروکریسی کی کرپشن،جاگیرداری نظام کی خرابیوں اور سرمایہ داروںکے استحصال کے باعث غربت عوام کیلئے بدنصیبی بن گئی ہے اور حد ِ نظر اصلاح ِ احوال کیلئے کوئی روشنی کی کرن نظرنہیں آرہی ان حالات میں۔۔

لوٹادو مجھے وہ بچپن کی یادیں
چاہے لے لو مجھ سے میری جوانی
اب بھی وہ منظر نہیں بھولتا
وہ کاغذ کی نائو، وہ بارش کا پانی

جیسی یادیں کہاں سوجھتی ہیں جب وو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں غریبوں کا بچپن ۔۔۔تو بچپنہ ہوتا ہے سکول جانے کی خواہش۔۔۔اچھا کھانا کھانے کی حسرت۔۔۔مہنگے کپڑے پہننے کی آرزو۔۔۔گاڑی،کوٹھی کیلئے دعا ۔۔۔ جن کا بچپن، جوانی ،بڑھاپا بدنصیبی ہووہ زمانے کے ساتھ کیا چلیں گے ۔۔۔میں سوچتاہوں ہمارے ملک کے نام کے ساتھ اسلامی جمہوریہ بھی لگا ہواہے لیکن یہ ملک اسلامی ہے نہ جمہوری ۔۔۔اگرہو تو دونوں صورتوںمیں عوام کے کچھ حقوق تو ہونے چاہییں۔۔

جن ممالک کو ہم کافر اورغیر مسلم قرار دیتے ہیں ان میں جانوروںکے بھی حقوق ہوتے ہیں اور ان کے حق میں آواز بلندکرنے کیلئے کئی تنظیمیں بھی موجود ہیں لیکن جس ملک کو ہم اسلامی جمہوریہ سمجھتے اور لکھتے ہیں یہاں تو غریب انسانوںکا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا وہ بے چارے ساری زندگی سسک، سسک کرجیتے ہیں نہ مرتے ہیں حسرت موہانی نے شاید خوشیوںکو ترستے غریب بچوںکے بارے ہی کہا ہوگا۔۔

یادِ ماضی بھی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

ہمارے ہم وطنوں میں سے اکثریت لوگ محرومیوں کا شکارہیں اسی لئے کہا جا سکتاہے ہم میں بیشتر کا بچپن اذیت ناک اورکربناک بیتا ہے لیکن اگر ہم نے تہیہ کرلیا۔ دل میں ٹھان لی توقدرت کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا مایوسی کی کوئی بات نہیں عزم یہ کرناہے مقصدکو نہیں بھولنا۔اس کیلئے بھرپور جدوجہد۔۔۔انتھک محنت اور دن رات ایک کرکے غربت کے خلاف ہر حال میں جنگ جینی ہے تاکہ ہمارے بچوںکا مستقبل روشن ،درخشاں اور تابناک ہو سکے وہ سوتی جاگتی آنکھوں سے ہی نہیں حقیقتاًبے داغ یونیفارم پہنے بڑا سا بیگ اٹھائے خراماں خراماں سکول جائیں اور انہیں دیکھ کر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ غربت نے پھول سے بچوں سے ان کی معصومیت چھین لی ہے۔۔

ہمارے ہاںکوئی ادارہ یا محکمہ ایسا نہیں جسے بچوں کے مستقبل کی فکرہو کاش حکمران جان پاتے جن کا بچپن محرومیوں میں گذراہو ان کی شخصیت میں ایک خلا رہ جاتاہے یہ لوگ خوداعتمادی سے محروم اور نفسیاتی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔۔۔ توفیصلہ ہوگیا ہم نے اپنے بچوں،بہن بھائیوں عزیزو اقارب اورمعاشرہ کو غربت کے دوزخ سے نکالنے کیلئے ان کی رہنمائی کرنی ہے خدا کرے وہ اپنے بچپن کی یادوں سے لطف اندوزہوں اور اپنے بچوں کو
اپنے بچپن کی کہانیاں سنائیں۔۔
چلو پھر لوٹ کر بچپن میں چلتے ہیں
کبھی میں چوربن جائوں،سپاہی بن کر ڈھونڈوتم
کبھی پٹھو گرم توڑیں اور ہنس کر بھاگ جائیں ہم

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی