ویلنٹائن ڈے کی حقیقت

Ahlla

Ahlla

اللہ رب العزت نے کائنات کو وجود دیا تو فرشتوں نے جن تحفظات کا اظہار کیا ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے غالب حکم یہ سنایا گیا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ایسے میں علماء و محققین کی تمام تر تحقیق اس عنصر کو واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کا وجود فقط نبی کریم صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کو دنیا میں مبعوث فرمانے کیلئے دیا جس کا عین ثبوت اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان عالیشان ہے کہ ”اگر دنیا میں اپنے محبوب پیغمبر صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کو نہ بھیجنا ہوتا میں کائنات تخلیق نہ کرتا” ایسے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ محبت ہی وہ بنیادی عنصر ہے کہ جو دنیا کی تخلیق و وجود کی بنیاد ہے اور سب سے بڑی محب ذات پیغمبر صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلمکی ہے جن سے خود خدا نے محبت کا اظہار فرمایا ہے۔

دریں حالات محبت و الفت کے دیگر کلیدی مصدر اہلبیت اطہار اور صحابہ کرام علیہم رضوان کی ذات ہے جن سے والہانہ عقیدت و محبت انسان کیلئے دنیا و آخرت کی کامیابیوں کے حصول کی ضمانت ہے، بدقسمتی سے ہماری قوم پر بھیڑ چال والا محاورہ سو فیصد درست ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہاں کوئی بھی کام ہو اسے بغیر پرکھے اور بغیر کسی تصدیق کے فوراً نقل کرنا شروع کردیا جاتا ہے ، مثلاً کپڑوں کے نئے ڈیزائن کے ساتھ نیا فیشن ہویا کسی گلوکار کا کوئی مشہور گیت ہو اسے خود پر جنون کے ساتھ مسلط کرلیا جاتا ہے۔

اسی طرح غیر ملکی اور غیر اسلامی تہوارو ں کو بھی اپنا تہوار بنالیا جاتا ہے، اس وقت پاکستان میں مختلف ممالک کے زیر سایہ این جی اوز ااپنا کام کررہی ہیں اور یہ این جی او فقط پیسہ کمانے کے چکر میں بے ہودہ و لغو اور فضول تہواروں کے فروغ کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ جیسا کہ پاکستان میں ویلنٹائن ڈے نہایت تیزی سے ایک موذی وبا کی طرح پھیل رہا ہے اکثر پاکستانی لوگ تو ویلنٹائن ڈے کے تلفظ اور اسکے مطلب تک کو نہیں جانتے مگر دیکھا دیکھی اس تہوار پر ہر سال کروڑوں روپے ضائع کردیتے ہیں کیونکہ پاکستانی مادہ پرستی اور یورپ کی غلامی میں اس قدر گھہرچکے ہیں کہ پھولوں کے گلدستے لینے دینے کیلئے بے چین و بے قرار رہتے ہیں۔

ہمارا ملک پاکستان کھربوں ڈالر کا مقروض ہے لیکن اسلامی شعار کو پامال کرتے ہوئے گستاخانِ رسول کے تہوار منانے کیلئے کروڑوں روپے فضول خرچی میں اڑا دیتے ہیں کہ جیسے دنیا میں سب سے خوشحالی ملک پاکستان ہی ہے گویا ہم لوگ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ دیگر قوموں کے فضول تہوار منانا چھوڑ دیئے تو ترقی کی راہ میں پیچھے رہ جائیں گے ، ہمارے ہاں رائج ادب و ثقافت اور ٹی وی پر چلنے والے ڈراموں اور بھارتی فلموں میں پیش کئے جانے والے عشقیہ مناظر میں پوری نوجوا ن نسل کو مریض عشق بنا رکھا ہے۔

Valentine Day

Valentine Day

سکول و کالجز میں عشق کے چکر اور گھروں سے اپنے آشنا کے ساتھ بھاگنے والی لڑکیوں کے واقعات میںتیزی سے اضافہ اس کی دلیل ہے، بازارو ں اور مارکیٹوں میں عید کارڈز ، 14اگست اور جشن عید میلادالنبی صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم جیسے مذہبی اور قومی تہواروں کی طرح ہر اس امپورٹ شدہ تہوار یعنی ویلنٹائن ڈے کے کارڈوں کے اسٹالز بھی لگنے شروع ہو گئے ہیں جبکہ مٹھائی اور بیکری کی دکانوں پر ویلنٹائن ڈے کیس کی فروخت بھی رواج بن چکی ہے، اس مقابلے کی دوڑ میں اب زندہ دلان لاہور تو کیا زندہ دلانے پاکستان نظر آرہا ہے۔

اس قدر جوش و خروش دیکھ کر راقم کو تو یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ کہیں کوئی سیاسی پارٹی اس بار الیکشن میں انتخابی نشان دل ہی نہ مانگ لے، پاکستانی قوم کو کیا ہوگیا ہے ؟، سائیکلوں ، موٹر سائیکلوں، کاروں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی حتیٰ کہ آج کل گلی محلوں میں سبزی اور مختلف چیزیں بیچنے والوں کی گدھا گاڑیوں وغیرہ پر بھی ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے گانوں کی ریکارڈنگ بج رہی ہے، راقم کے ایک قریبی دوست سیف اللہ گھمن کو اپنے کاروبار کے سلسلہ میں دبئی جانا پڑا تو جاتے ہوئے اس نے اپنی شاپ چاندنی گفٹ سنٹر پر بطور نگران کی ذمہ داری سونپ دی، چاندنی گفٹ سنٹر پورے شہر میں اپنے نام کی طرح اس وقت چمک دمک رہا ہے۔

ویسے تو اس گفٹ شاپ میں شادی ، بیاہ اور سالگرہ کے موقع پر دینے کیلئے گفٹ میسر ہوتے ہیں مگر ماہ فروری شروع ہوتے ہی سرخ پھولوں کے گلدستوں اور مصنوعی دلوں کی خریداری کا سلسلہ عروج پر جا پہنچا، کالج کے لڑکے لڑکیوں کے علاوہ مڈل سکولو ں کے لڑکے لڑکیوں میں بھی یہی جوش و خروش دیکھنے میں آیا، کم و بیش ایک ہفتہ کے دوران دو مرتبہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور سے خصوصی طور پر سرخ پھولوں کے گلدستے اور مصنوعی دلوں کو پرچیز کیا گیا ، ویلنٹائن ڈے کے گفٹ خریدنے والوںمیں کم عمر اور جواں سالہ لڑکیوں کی تعداد خاصی تھی جبکہ بعض لڑکیوں کے ساتھ تو انکی مائیں و دیگر عزیزائیں بھی تھیں جو گفٹ کی خریداری میں ان کی مدد کررہی تھیں۔

Pakistani Girls celebrated valentine

Pakistani Girls celebrated valentine

راقم نے ایک لڑکی کی ماں سے پوچھا کہ آپ کو پتہ ہے کہ یہ ویلنٹائن ڈے کیا ہے تو اس عورت نے جواب میں کہا کہ ”سانوں کی پتہ اے ایہہ کھسماں کھانا کی ہوندا ہے”بس یہ لڑکیوں کو سکول کی ٹیچروں نے کہا ہے کہ ایسی چیزیں خرید کر دوستوںکو دینا ، جبکہ ایک طالبہ سے پوچھنے پر مزید انکشاف ہوا کہ فلاں سکول میں تو ویلنٹائن ڈے کیلئے پیش کئے جانے والے ڈرامہ کی ریہرسل بھی کروائی جارہی ہے جبکہ ایک ٹیچر نے تو 14فروری کو پہننے کیلئے سرخ رنگ کا ایک اسپیشل سوٹ بھی تیار کروایا ہے۔

یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم پرائیویٹ سکولز میں اپنے بچوں کو فقط اس لئے داخل کرواتے ہیں تاکہ یہاں سرکاری سکولز کی نسبت بہتر پڑھائی اور تربیت ہو گی مگر جہاں ٹیچرز ہی ویلنائن ڈے کے ڈراموں کی ہیروئن بن رہی ہوں وہاںکچے ذہنوں کے طلباء کا کیا بنے گا، بلاشبہ ایسے کلچر کے فرو غ سے نہایت منفی رجحانات پروان چڑھیں گے اور وہ بے راہ روی کا شکار ہو جائیں گے، جس سے ہمارے معاشرہ میں مزید بگاڑ پیدا ہو گا، موجودہ صورت حال اور ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے راقم کا کہنا یہ ہے کہ
بجلی کبھی گیس کبھی پٹرول کا دن ہے
یعنی ہر روز یہاں پترول کا دن ہے
ساحر سبھی دل میں رکھ لو 15 تک
14فروری بھونڈوں کی چھترول کا دن ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ پچھلے ویلنٹائن ڈے کے موقع پر بتی چوک شیخوپورہ میں بھونڈوں اور منچلے لڑکوں کی پولیس کے ہاتھوں سرعام چھترول ہوئی تھی کیونکہ ان نوجوانوں نے نہ صرف اپنی موٹر سائیکلوں کے سلنسر اتار کر بے ہنگم انداز میں موٹر سائیکلیں دوڑائی بلکہ سکول و کالج کی لڑکیوں کے آگے پیچھے پوٹھی سیدھی حرکتیں بھی کیں، ان بھونڈوں کی شرٹوں پر ویلنٹائن ڈے اور دل بنائے گئے تھے اور کئی لڑکے ہاتھوں میں غبار ہ نما دل اچھال کر لڑکیوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے رہے یقینا اس بار بھی ایسا ہی ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ معاشر ے میں برائی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے ، کاش ایسے نوجوان یہ بھی سوچ لیں کہ اگر ان کی بہن کو کوئی اس طرح تنگ کرے تو ان کے دل پر کیا بیتے گی۔

قارئین! کہنے کو توبہت ساری باتیں اور گزشتہ کئی برسوں سے ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور کہا گیا مگر نہ تو اس سے نوجوانوں نے بے راہ روی ترک کی اور نہ ہی کسی طرح اس سلسلہ کی روک کا کوئی عنصر سامنے آیا جس کی حقیقی ذمہ داری فقط انتظامی اداروں کی ہی نہیں بلکہ عام شہریوں کو بھی ویلنٹائن ڈے جیسے تہوار سے نئی نسل کو دور رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

Sahir Qureshi

Sahir Qureshi

(تحریر : ساحر قریشی )