ہمارے ووٹ کی قیمت ! ایک گرم چائے کی پیالی

PPP

PPP

نڈر بے باک نہ بکنے والا نہ جھکنے والا عوام کاخادم عوام کا دوست غریبوں کا ہمدرد غریبوں کا ساتھی عوام کی امنگوں کا صیح ترجمان آپ کے ووٹ کا صیح حقدار فلاں ،فلاں اور فلاں یہی وہ الفاظ ہیں جو اب آپ کو پاکستان کی ہر گلی موڑ اور نکڑ پر بڑے بڑے بینرز اشتہارات اور دیواروں پر لکھے ہوئے نظر آنے والے ہیں کیونکہ16 مارچ 2013تک پاکستان پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرچکی ہے قومی و صوبائی تحلیل ہو نے کے بعد اب تو بس نئے الیکشن کی آمد آمد ہے یہی وجہ ہے کہ آجکل سیاست کے شیئر بازار میںبھی سیاستدانوں کے داموں میں دن بدن اضافہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔

اور وہ سیاستدان جو پچھلے پانچ سالوں سے missing pesons کی طرح اپنے اپنے حلقوں سے غائب ہوئے ہوچکے تھے اوربچارے عوام جو اپنے منتخب کردہ نمائندوں کا چن جیا ء مکھڑا دیکھنے کو بھی ترس گئے تھے اب وہ بھی اپنے اپنے متعلقہ حلقوں میں ایسے نظر آنے لگے ہیںجیسے کہ یہ کبھی عوام سے دور ہوئے ہی نہیں تھے لیکن گزشتہ پانچ سالوں میں یہ عوام کے خادم عوام کے ہمدرد معصوم عوام کے لیے ڈان بنے ہوئے تھے کیونکہ دوران اقتدار ان لوگوں سے مل پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔ان حفرات کے وہ ڈ یرے جو پچھلے پانچ سالوں سے بند پڑے تھے جن کے تالوں کو بھی زنگ لگ چکی تھی اب وہ زنگ زدہ تالے ٹوٹ چکے ہیں۔

اور ویران ڈیرے پھر سے آباد نظر آنے لگے ہیں۔ میں داد دیتا ہوں اپنے مہان سیاستدانوں کو بے شرمی۔ مکاری۔وعدہ خلافی۔منافقت اور اداکاری میں مہارت رکھنے کی اور یہ میں چیلنج سے کہہ سکتاہوں کہ دلیپ کمار ۔امیتابھ اور شاہ رخ جیسے ٹاپ کلاس ہیروز بھی ہمارے سیاسی اداکاروں کے سامنے زیرو ہیں کیونکہ ہمارے سیاسی اداکار وںکی اداکاری کا ایسا جادو ہمارے سروں پر چڑھا ہوا ہے کہ ہم ان کے جھوٹے وعدوں پر ایسے یقین کر لیتے ہیں کہ جیسے ان جیسا صادق اور مخلص پوری دنیا میں کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا جو محض دکھاوا ہوتا ہے اور ایسے فریب ہمارے ساتھ ایک بار نہیںبلکہ بار بار ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجو د بھی ہم پھرسے ان مکار لوگوں کی باتوں پر اعتماد کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں اب یہ ان کا فن نہیں تو اور کیا کہیںگے۔ خیر چھوڑیں اور کیا کیا گن گنوائوں میں اپنے پیارے سیاستدانوں کے بے ہودہ کارناموںکے۔

کیوں نہ اب تھوڑی بات ہم اپنے متعلق بھی کر لیں ۔اگر آپ بھول چکے ہیں تو میں آپ کو یاد کروانا چاہتا ہوں کہ اب سے تقریباً پانچ سال پہلے مشرف کے جانے کی خوشی میں ہم لوگوں نے خوب بھنگڑے ڈالے اور مٹھیاں تقسیم کی تھیں شاید یہ سوچ کر کہ جمہوریت کے آ جانے سے ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا اور جمہور بھی خوش وخرم زندگی گزارنے کے لائق ہو جائیںگے ایسا سوچ کر ہم سے کچھ تو ہوگئے اس غلط فہمی کاشکار اور کچھ محترمہ بی بی کی شہادت کے بعد ایسے جذباتی ہوئے کہ انہوں نے آگئے دیکھا نہ پیچھے بس محترمہ بی بی شہید کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنا قیمی ووٹ دیکر اقتدار تک پہنچا دیا بغیر یہ سوچے سمجھے کہ اب پیپلز پارٹی کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میںہے اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والا شخص کون ہے۔

Pakistan

Pakistan

اب شاید ہم سب کو اپنے ا س جذباتی فیصلے کا احساس ہوچکا ہوگاجو ہم نے پانچ سال پہلے کیا تھا ۔ پچھلے پانچ سالوں میں پاکستان کا جتنا نقصان ہوا ہے وہ یقینانا قابل تلافی ہے۔وہ ماضی جو بیت چکا ہے اسے میں صر ف اس لیے دہرا رہا ہوں کہ وہ غلطیاں جو بار بار ہم سے سر زد ہوہوتی رہی ہیں اب ہمیں ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر آنے والے وقت کے لیے کوئی ایسا لحہ عمل تیار کریں کہ جس سے ماضی میں کی ہوئی غلطیوں کا ازالہ ہو سکے۔کیا ہم میں سے کبھی کسی نے یہ سوچنے کی بھی زحمت اٹھائی ہے کہ ہمارے درمیان مذہب ۔قومیت۔لسانیت اور صوابیت کی دیواریں کھڑی کرنے والے کون لوگ ہیں۔

تو جناب سن لی جیئے !یہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے ہی ملک کے وہ مفاد پرست سیاستدان ہیںجو محض اقتدار حاصل کرنے کی غرض سے ہمیں آپس میں لڑواتے اور مرواتے ہیں کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی رنگ نسل زبان اور برادری کے نام پر امیوشنل کرکے۔ ۔۔لیکن کب تک ہم لوگ چند مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں کٹ پتلی بنے ہوئے اپنے ہی لوگوں کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگتے رہیں گے آخر کب تک؟ معزز قارئین تاریخ گواہ ہے کہ اگر انسان چاہے تو اچھی تدبیر کرکے اپنی لکھی ہوئی بری تقدیر کو بھی بدل سکتا ہے اب ہماری تقدیر اور ہمارے مقدر کا فیصلہ خود ہمارے ہاتھوں میںہے اور وہ ہے ہمار ا قیمتی ووٹ ہمارے پاس یہ ایک ایسی طاقت ہے اگر ہم اس کا استعمال صیح تدبیر کے ساتھ کریں۔

تو یقینا ہم بہت جلد اپنی اور پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔اب یہ فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے کہ کیا پچھلے پانچ سالوں کی طرح آنے والے پانچ سالوں میںبھی ہم نے بجلی کی طویل دورانیہ کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ۔گیس کی بندش۔ بدترین مہنگائی ۔بھوک ۔ غربت۔ بے روزگاری ۔ کرپشن اور دہشت گردی جیسے خطرناک اور بھیانک مسائل کو جھیلتے ہوے بلک بلک اور سسک سسک کر ہی جینا ہے یا پھر اس بوگس نظام کے خلاف علم جہاد بلند کرنا ہے۔اگر آپ اپنے آپ کو ایک سچا اور محب وطن پاکستانی سمجھتے ہواور چاہتے ہو کہ ہماری آنے والی نسلیں کرپشن اور دہشت گردی سے پاک پاکستان دیکھیں تو پھر آئو سب مل کر یہ عہد کرتے ہیں کہ اب اس الیکشن میں ہم مفاد پرست سیاستدانوں کے بہکائوے میں نہیں آئیں گے۔

مذہب ،زبان اور قومیت سے بالا تر ہوکر صرف اور صرف پاکستانی بن کر ایک نئے پاکستان کے لیے اپنے قیمتی ووٹ کا ا ستعمال کریں گے او ر ایسے لوگوں کو کامیاب بنوائیں گے جو ہم میں سے ہونگے جو ہمارے دکھ درد تکلیف میں ہروقت ہمارے ساتھ ہونگے لیکن یہ تب تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک ہم (جان اﷲدی تے ووٹ بھٹو دا یا نواز شریف دا) جیسی سوچ سے باہر نہیں نکلیں گے۔اگرآپ سب صیح معنوں میں پاکستان میں تبدیلی دیکھنے کے خواہشمند ہو تو پھر ایک بار عام طبقے سے اور نئے لوگوں کو اسمبلیوں میںلے کرآئو۔ زمینداروں ۔جاگیر داروں ۔وڈیروں اور خاندانی سیاستدانوں کو ایونوں سے باہر نکال پھینکوکیونکہ بار بار کے آزمائے ہوئے لوگوں کو اب اور آزمانے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیںہے۔

اور نہ ہی اب ان کے کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں پر یقین کرنا ہے۔جب سے الیکشن 2013 کا اعلان ہوا ہے تب سے کاروباری سیاستدانوں نے بھی اپنی سیاسی دکانوں(ڈیروں) کے دروازے پھر سے ہم عوام کے لیے کھول دئیے لیکن یاد رکھئیے یہ وہی دروازے ہیں جو پورے پانچ سال تک ہمارے لیے بند رہے ہیںاور جن کے باہر لکھ ا ہوا تھا متعلقہ حلقے کے ووٹرز اور کتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔اب بند ڈیروں کو کھولنے کا مقصد صر ف اور صر ف اتنا ہے کہ جہاں یہ لوگ بیٹھ کر ہمیں پھر سے بہلا پھسلا کر جھوٹی عزت دے کر اور ایک گرم چائے کی پیالی ہماے ہاتھوں میں تھاما کر ہماے ضمیر یعنی قیمتی ووٹ کا سودا کرسکیں۔

Kifait Hussain

Kifait Hussain

تحریر : کفایت حسین کھوکھر