ولی بابر شہید۔۔۔ اور اب نعمت رندھاوا ؟

Hakeem Saeed

Hakeem Saeed

روشنیوں کا شہر روشنیوں کا نہیں اک عرصہ سے گرتی لاشوں کا شہر ہے اب یہ بد قسمت شہر مزید دکھ نہیں جھیل سکتا 11 ستمبر 2012 کو بھتہ نہ ملنے پر ایک فیکٹری جس میں معاشی حالات کے ستائے پنجاب کے مزدور اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہے تھے کو زندہ جلا دیا گیا اور اُن تین سو شہداء کی راکھ پر سیاست کرنے والے درندے دندناتے پھر رہے ہیں جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے گھروں سے آہ و بکا کا دھواں آج بھی اُٹھتا ہے کہ اِس بد قسمت ضلع کے سو سے زائد نوجوان اس آگ میں راکھ ہو گئے ٹارگٹ کلرز کا تسلط ہے جس کا تسلسل پچھلے 23 برسوں سے ٹوٹ نہ سکا حکیم سعید جیسا بے ضرر محب وطن بھی اس مافیا کے ہاتھوں موت کی بھینٹ چڑھا، فیکٹری مالکان سے بھی اس مافیا نے بھتہ مانگاتو انھوں نے شہر چھوڑنے میں عافیت سمجھی اور بھتہ مافیا نے تین سو انسانوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔

مدیر تکبیر غازی صلاح الدین شہید نے سچ کہنے کی سزا پائی ولی محمد بابر کی شہادت سے لیکر نعمت رندھاوا تک انسانی زندگیاں ہیں کہ شہر قائد پر مسلط یہ مافیا انہیں نگلتا جا رہا ہے سچائی پر جھوٹ کی ملمع کاری کر کے اس کی ہیئت تبدیل نہیں کی جاسکتی، شاہد حیات سی پی او کراچی کی پریس کانفرنس کو جھٹلانا اب ممکن نہیں حادثاتی واقعات کا تناظر مجرموں کا تعین کیا کرتا ہے ہفتہ 12 مئی 2007 کی صبح طلوع ہوئی تو روشنیوں کے شہر میں خوف و ہراس، موت اور دہشت کے عفریت نے اپنے منحوس پر پھیلا دیے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ہائی کورٹ بار سندھ کی طرف سے گولڈن جوبلی کی تقریب میں شرکت کی۔

دعوت ملی معزول چیف جسٹس عازم سفر ہوئے تو کراچی ائیر پورٹ پر نہ تو ان کے میزبان و کلا کو آنے دیا گیا اور نہ ہی سکیورٹی موجود تھی اعتزاز احسن جو اس وقت ان کے ہمراہ تھے نے کہا کہ چیف جسٹس کو اغوا کرنے کی کوشش ہوئی۔معروف عوامی شاہراہ فیصل 25 کلومیٹر تک گاڑیوں سے بلاک تھی چیف جسٹس کے استقبال کیلئے آنے والے اپوزیشن کے کارکنوں نے بمشکل تمام جب اپنے سفر کا آغاز کیا تو دہشت گرد پوزیشنیں سنبھال چکے تھے پھر لاشیں گرنے اور گاڑیوں کو آگ لگنے کا لامتناہی سلسلہ چل نکلا انسانی چیخیں سننے اور انھیں بچانے کیلئے دور دور تک سکیورٹی کا کوئی انتظام نہ تھا روشنیوں کے شہر پر اقتدار کی دسترس جس طاقت کی تھی۔

Mehmood Khan Achakzai

Mehmood Khan Achakzai

وہی واویلہ کر رہی ہے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اسمبلی فلور پر سچ کہا کہ کراچی دہشت گردوں کاشہر بن چکا ہے 12 مئی کے واقعات کی تحقیقات کرائی جائیں ورنہ پاکستان نہیں چلے گا اُن کا یہ سوال چیف جسٹس افتخار چوہدری سے جواب مانگتا ہے کہ 12 مئی کے شہداء کے قاتلوں کا تعین کیوں نہیں کیا جاسکا کہ اس واقعہ کا ذمہ دار شہر قائد پر اقتدار کی دسترس رکھنے والا حکمران طبقہ تھا کراچی شہر کے امن پر از خود نوٹس لیا گیا تو بھی اس کے امن کو ادھیڑ نے والے مافیا کا تعین نہ ہوسکا بھتہ مافیا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خون کی ہولی کھیل رہا ہے چمن کی بہار نوچنے والے باغبان نہیں صیاد ہوا کرتے ہیں۔

اور جن کی آنکھوں سے زہر، ہوس اور آستینوں سے لہو کی بوندیں ٹپک رہی ہوں وہ لیڈر نہیں بزدل ہوا کرتے ہیں، شہر قائد ظالموں، قاتلوں اور قزاقوں سے خون ناحق کا ایک ایک قطرہ حساب مانگتا ہے، بے گناہوں کا لہو جو تاریک راہوں میں مارے گئے ایک لہو وطن کو زندگی حسن و توانائی بخشتا ہے اور ایک لہو جب بہتا ہے تو پوری انسانیت مر جاتی ہے ایک سوال اٹھتاہے کہ اندھیرا کیا اور اجالا کیا ہے؟ وطن فروشی یقینا اندھیرا ہے اور حب الوطنی اجالاہے اندھیروں میں سفر کرنے والے روشنی کی لذت سے محروم ہوگئے، لوٹ مار، کرپشن اور ہوس اقتدار کی خاطر انسانیت کا ناحق خون بہانے والے عوام کی عدالت میں اپنے نا پسندیدہ اعمال کی تصویر بن جاتے ہیں۔

Poverty

Poverty

وقت کسی کے چشم و ابرو کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ آنکھیں دکھاتا ہے اہل نظر سے ملووہ دل میں انجانا خوف لیے پھرتا ہے، ستارہ شناس ستاروں کی نحوست کی بات کرتا ہے وہ خلق خدا جو 11 مئی 2013 کو ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد قارون کے خزانے کی منتظر تھی غربت و افلاس کی گہرائیوں میں گم ہوگئی تسلیوں کا نشتر پانچ سالوں سے عوام کی پیٹھ میں گھونپا جاتا رہا اور اُس سے بد تر اب ہو رہا ہے وقت فیصلہ صادر کرنے والا ہے ہوس اقتدار کی آگ ہے کہ بجھنے میں نہیں آرہی عوامی نمائندگی کا جنہیں دعویٰ ہے ان کا دامن عوامی اُمنگوں کے لہو سے تار تار ہے جمہوریت نے تو آمریت کو مات دیدی اذیت ناک لمحہ وہ ہوتا ہے۔

جب صبح کے آثار شروع ہوں اورسورج نکلنے کا نام نہ لے۔ جمہوریت کی، صبح کاذب کی تھکا دینے والی تکلیف ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے ترقی کے لفظ آہستہ آہستہ سوتیلے ہوتے جارہے ہیں حکمرانوں کے عوام دوستی کے چہرے بے نقاب ہوچکے پیچھے قدم لے جانے کے تمام راستے مسدود ہو چکے کہ اکثر اوقات مہلت کا آخری لمحہ بھی ریت کے ذرات کی مانند ہاتھوں سے پھسل جاتاہے روشنیوں کا شہر وطن دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کی زد میں ہے محب وطن اور خیر کی قوتوں کے اٹھنے، زندگی کا ثبوت دینے کا وقت آپہنچا، وہ امن جس کے پیچھے طاقت نہ ہو ریت کی دیوار ثابت ہو اکرتاہے اور وہ اقتدار جس میں قوت فیصلہ اور بروقت قدم اٹھانے کا حوصلہ نہ ہو۔

اپنے بوجھ تلے ہی دبتا چلا جاتاہے قائد کا شہر مردانِ کار کو پکار رہا ہے کہ بڑھیں اور خوف و خطر کی ساری بندشیں توڑ ڈالیں حالات کی باگ اپنے ہاتھوں میں تھامیں اور شہرپر مسلط بدی کو سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیں۔ آنکھیں جو دور تک دیکھ سکتی ہیں سوچ میں ڈوبی ہیں اندیشہ ہائے دور دراز سے جی گھبرا رہا ہے مگر یقین اور امید کے شفاف جذبے ہنوز سینوں میں باقی ہیں کہ شاہد حیات، چوہدری اسلم جیسے محب وطن پولیس آفیسرز کا وجود بھی اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے۔

M. R. Malik

M. R. Malik

تحریر : ایم آر ملک