ہاں صرف ایک مچھر

Sikandar

Sikandar

ہاں صرف ایک مچھر نے اسلامہاں صرف ایک مچھر، کارسوار نفسیاتی ملزم سکندر نے پندرہ اگست کی شام چھ بجے سے رات ساڑھے گیارہ بجے تک ہمارے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو ساڑھے پانچ گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا، اِس کا رسوار سکندر نامی مسلح دہشت گرد نے اپنی بیوی بچوں سمیت اسلام آباد میں جس قسم کی دہشت گردی کی اِس کی اِس دہشت گردی نے تو ہمارے سیکورٹی اداروں کی ریڈالرٹ کے سارے اقدامات کو دھول میں اڑاکرسب کی قلعی کھول دی ہے، اِس میں کوئی شک نہیں کی نیم پاگل سکندر نامی مسلح شخص کی دہشت گردی نے وفاقی پولیس کی جرات وبہادری اور اس کی استعداد کا بھانڈا کچھ اِس طرح سے پھوڑا کہ ساری دنیا نے دیکھ لیا کے ہمارے دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس کے ریڈالرٹ کا کیا معیار ہے۔

کہ سکندر جیسا ایک مچھربھی مسلح ہو کر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ریڈزون میں گھس جائے تو اسلام آبادکی پولیس کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں، اسلام آبادمیں پیش آئے اِس واقعے پر اپنی پولیس پر اتنی تنقید بہت ہے، ورنہ ورنہ اگریہ کسی موقعے پر آبے سے باہر ہوگئی تو پھر اِسے قابو کرنا مشکل ہو جائے گا۔ بہرحال جمعرات پندرہ اگست کی شام چھ بجے کے قریب ملزم سکندرجو ایک کالے رنگ کی کرائے کی کار میں اپنی بیوی کنول، دو بچوں(بیٹی فروااور بیٹے عبداللہ) کے ہمراہ سوار تھا، ملزم سکندر نے اپنی گاڑی اوجی ڈی سی ایل ہیڈکوراٹرز کے قریب گرین بیلٹ پر چڑھادی ، اِس سے قبل اسلام آباد کی پولیس کی گاڑیاں ملزم سکندر کی گاڑی کا پیچھا کر رہی تھیں۔

مگر ایسالگتاہے کہ جیسے ملزم نے پولیس کے سامنے پہلے ہی خود کو مشکوک ظاہر کردیاتھا تب ہی تو پولیس ملزم سکندر کے پیچھے لگ گئی تھی،اور جب پولیس اِس کا تعاقب کرنے لگی توملزم سکندر نے اپنی پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کے تحت اپنی گاڑی کا رخ اِس مقام کی جانب کرلیا جو اِس کے پلان کا حصہ تھا، اور جیسے ہی ملزم سکندر اپنے ڈرامے کے مقام پر پہنچ گیاتو ملزم سکندر اپنی پہلے سے پلاننگ کے تحت ایک ہاتھ میں کلاشنکوف اور ایک ہاتھ میں سب مشین گن لے کر باہر آیااور ہوائی اور اسٹیٹ فائرنگ شروع کردی، جس سے خوش قسمتی سے کوئی زخمی اور جانی نقصان تونہیں ہوا۔

البتہ ملزم سکندر کے عزائم کو بھانپتے ہوئے پولیس نے فوری طور پر جائے وقعہ کا محاصرہ کیا اور ملزم سکندرکو زندہ گرفتار کرنے کے لئے بکتربند گاڑیاں طلب کرلیں، جیسے جیسے پولیس اپنے اقدامات کو حتمی شکل دیتی جارہی تھی، اِس دوران ملزم سکندر بھی وقفے وقفے سے فائرنگ کے سلسلے میں تیزی پیدا کرتا جا رہا تھا، چونکہ پولیس کی شروع ہی سے اولین حکمتِ عملی یہ رہی تھی کہ کسی بھی طرح سے ملزم سکندر اور اِس کے اہلِ خانہ کو نقصان پہنچائے بغیر زندہ سلامت گرفتار کیا جائے، تاکہ اِس دہشت گردی میں ملوث پسِ پردہ دیگر عناصر تک بھی پہنچا جاسکے۔

Police

Police

اِس بناپر پولیس اپنی اِس حکمتِ عملی پر کاربندرہ کر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس پانچ گھنٹے تک میڈیا اور عوام کی جانب سے خود پر ہونے والی تنقیدیں توبرداشت کرتی رہی مگربالآخریہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوگئی، اور پانچ گھنٹے بعد ملزم سکندر کو معمولی زخمی کرنے کے بعداِسے زندہ سلامت گرفتار کر لیا۔ جب ملزم سکندر دہشت گردی کے جوہر دکھا رہا تھا،اِس دوران ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹر رضوان اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پولیس کے دیگرحکام سمیت رینجرز کے تازہ دم دستے بھی سب کام چھوڑ چھاڑ کر جناح ایونیو پہنچ گئے، اور مسلح ملزم سکندر کی بیوی کنول کے ذریعے مسلح دہشت گرد کے ساتھ مذکرات کا عمل شروع کیا۔

مگرملزم سکندر جو اپنے مطالبات پر قائم رہا، اِس نے خودکو سرنڈرکرنے سے انکار کر دیا، تاہم لاکھ کوششوں کے باوجود بھی کوئی بھی ملزم سکندر سے باتوں اور مذاکرات میں اُلجھا کر گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ جبکہ ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹر رضوان نے نہتے ہو کر مسلح دہشت گرد جس نے ہمارے انتہائی ہائی الرٹ اسلام آباد کو ساڑھے پانچ گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھاتین بار مذاکرات کئے ،اور اِسی طرح ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی نبیل گبول بھی مسلح دہشت گرد سکندر سے مذاکرات کے لئے آگے آئے مگر یہ ڈھیٹ دہشت گرد تھاکہ اِس نے کسی کے بھی سامنے سرنڈر ہونے سے انکار کر دیا اور یوں ہر بار مذاکرات ناکامی پر ختم ہوئے۔

آخرکار جب مُلک کی گھڑیوں نے رات کے گیارہ بجے کا آلارم بجا دیا تو اُسی لمحے ہماری سابقہ حکومت اور آج کی اپوزیشن کے ایک جیالے محترم المقام عزت مآب جناب زمرد خان کے اندرحب الوطنی کے جذبے نے کروٹ لی اور وہ اِسی جذبے کے سہارے ہمت کرکے ملزم کے معصوم بچوں کو پیارکرنے اور اِن کے سرپر اپنی شفقت اور محبت کا ہاتھ پھیرنے کے بہانے مسلح دہشت گرد سکندرکے قریب گئے اور جیسے ہی پی پی پی کا یہ بہادرجیالا سکندر کے قریب پہنچااِس نے آؤ دیکھانہ تاؤ اِس جیالے نے مسلح دہشت گرد سکندر کو دپوچنے کی کوشش کی، تو یہ سلپ ہوگئے، اور سکندر نے اِن پر فائرنگ بھی کر دی تاہم اللہ کے فضل وکرم سے (پی پی پی کاجیالہ) زمردخان محفوظ رہے۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

اِن کی اِس بہادری اور کوشش کے بعد پھرہماری چاق وچوبند فورسز کے دستوں نے تُرنت سکندر کے پاؤں پر فائرنگ کے کراِسے زخمی کیا اور اِس کو زندہ گرفتار کر کے اپنے کاندھوں پر ترقی کے پھول لگانے اورسجانے کے خواب دیکھنے شروع کردیئے ہیں۔ اگرچہ زخمی سکندر اور اِس کی زخمی بیوی کنول جو اِس ہی کی گولی کانشانہ بنی تھی دونوں کو مقامی اسپتال میںداخل کردیاگیاجہاں دونوں کا علاج جاری ہے، اطلاعات یہ ہیں کہ اَب سکندراور اِس کی بیوی کی حالت خطرے سے باہر ہے، وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی اِس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کیمٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیاہے۔

اور اِس کمیٹی کی پل پل کی پیش رفت سے خودکو آگاہ کرنے کا سختی سے بھی حکم دے رکھا ہے۔ جبکہ ادھرا پوزیشن جماعتوں نے بھی اسمبلی میں اِس واقعے پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اگرچہ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو حکومت پر تنقید کرنے اور اِسے بدنام کرنے کا ایک موقع ہاتھ آگیاہے، اَب حکومت کو چاہئے کہ ایسے میں مضبوط بنیادوں پر ایسے شواہد پیش کرے کہ جس سے یہ واضح ہو جائے کہ اِس سارے ڈرامے کے ڈانڈے کہاں سے ملتے ہیں تاکہ اپوزیشن جماعتوں کے کھلے منہ اور تیز تیز چلتی زبانوں کو بھی بند کیا جاسکے۔ یہ نفسیاتی مریض ملزم سکندر کی کھلی دہشت گردی نہیں تھی تو اورکیا تھی۔

کہ ملزم پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں بھی کلاشنکوف اور مشین گن ہاتھوں میں اُٹھائے، کبھی ہوائی تو کبھی اسٹیٹ فائر کرتا رہا، اور ٹھاٹ کے ساتھ اپنی کرائے کی کالے رنگ کی جعلی نمبرپلیٹ والی کار میں بیٹھ کرسگریٹ اور کولڈڈرنکس اور پانی بھی پیتارہا، اور اِ س کے ساتھ ہی دیدہ دلیری اور سینہ جوڑی سے اپنی دہشت گردی اور اسلام آبادکی پولیس کو ناک چنے چبوانے کی داستان بھی مختلف ٹی وی چینلز کو فون پر بتاتا رہا، اور ٹی وی چینلز کو اپنے مطالبات ریکارڈ کرتا رہا، اِس کا مطالبہ تھاکہ ” ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے، اور شرعی تقاضوں کے مطابق الیکشن دوبارہ کرائے جائیں، مسلمان فوج نہ اٹھی تورسوائی کا ٹیکہ لگنے والاہے۔

Terrorism

Terrorism

مجھے کوئی نقصان پہنچاتو میں خود تو مروں گا اور سب کو ساتھ لے کر مروں گا، اِس موقع پر اِس نفسیاتی مریض دہشت گردملزم سکندر کی معاون بیوی کنول کا بھی یہ کہناتھاکہ ” ہاں ہم مسائل سے تب نکلیں گے جب ہم مسلمان اکٹھے ہوں گے، ایس ایس پی سے بات ہوئی ہے اور ہم نے مطالبات لکھ کردیئے ہیں، جن میں مُلک میں دین کا نفاذ اور اسلامی طریقے سے دوبارہ الیکشن کرانا شامل ہیں۔ آج کچھ لوگ ایسے بھی میرے دیس میں ضرور موجود ہوں گے، جو نفسیاتی مریض دہشت گرد سکندر کے اِس عمل کو احتجاج ریکارڈ کرانے کا کوئی اچھا عمل تصور کرر ہے ہوں گے، مگر ایسے لوگوں کے لئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج جن کا خیال یہ ہے۔

کہ دہشت گرد سکندرنے جو کیا وہ ٹھیک ہے تو یہ خیال کرنے والے بھی سکندرکی طرح نفسیاتی مریض ہیں جو اِس قسم کا عمل کرکے یہ چاہتے ہیں کہ یہ اکیلے ہی ریاست کا نظام تبدیل کردیں گے یامسلح ہوکر یہ نکلیں گے تو مُلک میں نظام تبدیل ہوجائے گا تو یہ ایسے لوگوں کی بھول ہے، اِس طرح دنیا کے کسی بھی مُلک کا کوئی بھی شخص نظام تبدیل نہیں کراسکتاہے، ایسے لوگوں یا گروھ جو بھی مسلح ہو کر مُلک کا نظام تبدیل کرنے یاکرانے کے لئے نکلیں، اِنہیں سخت ترین سزادی جائے، چاہئے سکندر ہو یا طالبان کی شکل میں کوئی طاقتور دہشت گردوں کا ٹولہ ہی کیوں نہ ہوں ، اِن سب کا قلع قمع کرنے کے لئے ساری قوم کو یکد ل اوریک جان ہوکر نکلنا ہوگا۔

اگرہم سب نے باہم متحد ہو منظم ہو کر سکندر اور اِس جیسے دوسرے وہ گروھ جو خود کو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلحے کے زور پر طاقتور ترین لوگ ہیں یہ جو چاہئے اپنی مرضی کا نظام رائج کراسکتے ہیں ، اِن سب کو حکومت اور افواج پاک کے ساتھ مل کرپہلے مذاکرات کی دعوت دینی ہوگی، اور اگر پھر بھی یہ نہ مانیں تو پھر اِن سب کو راہ راست پر لانے کے لئے حکومت اور افواج پاک کے ساتھ مل کرساری پاکستانی قوم کو لڑنا ہو گا، اور اپنے مُلک اور قوم کی بقاکے خاطراِن سب سے مُلک کو پاک کرنا ہوگا جو مسلح ہو کر مُلک کو اپنی مرضی کے نظام کے طابع لانا چاہتے ہیں، کوئی مُلک میں اسلامی نظام کے رائج کا مخالف نہیں ہے، مگریہ نظام اِس طرح تو کسی ایک کی مرضی سے نافذ نہیں ہوسکتا، جس طرح سکندراور اِس کی بیوی اور مُلک میں موجود دوسرے مسلح گروپس چاہ رہے ہیں۔

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamamziazam@gmail.com