ارسلان افتخار نظرثانی کیس : سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

 Arsalan Iftikhar

Arsalan Iftikhar

اسلام آباد (جیوڈیسک)ارسلان افتخار کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے. ملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری نے کہا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے زیر التوا مقدمے میں عدالتی حکم کے خلاف پریس ریلیز جاری کی ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔

ارسلان افتخارنظرثانی کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل بینچ کر رہا ہے ۔ ارسلان افتخار کی جانب سے نیب کے جواب کاجواب عدالت میں جمع کروایا گیا۔ ارسلان افتخار کے وکیل سردار اسحاق کا کہنا تھا کہ ملک ریاض کا اسلام آباد میں بہت زیادہ اثر رسوخ ہے۔ پولیس ان کے وارنٹ لے کر تھانے آئی تو انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ چیئرمین نیب کے ساتھ ان کے گہرے مراسم ہیں۔ ان کی بیٹی بحریہ ٹاون میں ملازمت کرتی رہی ہیں ۔ہمیں نیب کی تحقیقات پر اعتماد نہیں۔ پراسیکیوٹر نیب اکبر تارڑ نے کہا کہ چیئرمین نیب کی بیٹی کو یہاں زیر بحث نہ لایا جائے۔اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہاں جو بھی معاملہ آیا ہے وہ کسی کی بیٹی یا بیٹے کا ہی ہے۔ ڈی آئی جی سیکورٹی پولیس نے ملک ریاض کو پروٹوکول سے متعلق رپورٹ دی ہے۔

سردار اسحاق نے کہا کہ نیب کے چیئرمین کا استعفی پہلے سے حکمرانوں کے پاس موجود ہے نیب چیئرمین اس مقدمے کی غیر جانب دارانہ تفتیش نہیں کروا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ نیب جانبدار اور متعصب ہے۔ کیس کی انکوائری کسی جج کو سونپی جائے۔ ملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری نے کہا کہ ارسلان افتخارکے وکیل نے درخواست بھی نہیں دی پھر بھی سپریم کورٹ نے پروٹوکول کی وڈیوچلادی۔ چیئرمین نیب کی بیٹی کی ملازمت پراعتراض کیا گیا اگر اسی اصول کا اطلاق کیا جائے تو پھر ہر جج کا بیٹا یا بیٹی کسی ادارے سے منسلک ہوگا۔ مقدمے میں سیاست ملوث کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ارسلان افتخار کے وکیل کو پنجاب حکومت سے بہت پیارہے ۔وہ چاہتے ہیں کہ تحقیقات اینٹی کرپشن کوسونپی جائے جبکہ پنجاب حکومت اینٹی کرپشن کو ملک ریاض کے خلاف استعمال کررہی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واحد مقدمہ ہے جس میں رجسٹرار نے میڈیا کو پریس ریلیز جاری کی۔ پریس ریلیز میں رجسٹرار نے کہا کہ ارسلان افتخار کیس میں کوئی حکم امتناہی جاری نہیں کیا جب کہ عدالت حکم امتناعی جاری کر چکی تھی۔ اس پریس ریلیز سے عدالت کا امیج بہت خراب ہوا۔ رجسٹرار کو اختیار نہیں کہ زیر التوا مقدمے میں عدالتی حکم کے خلاف پریس ریلیز جاری کرے۔ ان کے اس اقدام کے خلاف ایکشن لیا جائے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم نے آپ کا اعتراض نوٹ کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئے۔ ہم اس پہلو پر بھی غور کریں گے کہ پہلے نیب سے تحقیقات مکمل کروائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک ریاض کی نہ انکوائری کرنی ہے نہ ٹرائل یہ کام سپریم کورٹ کا نہیں متعقلہ تفتیشی اداروں کا ہے۔