مقبول حسین شاہ 1954 جھنڈو خیل بنوں میں پیدا ہوئے۔ والد ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ مقبول حسین شاہ جوانی میں ایک خطرناک بیماری سکلیروڈرما میں مبتلا ہو گئے۔13 مئی 1990 کو وفات پاگئے
مقبول حسین شاہ1954 جھنڈو خیل بنوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد امیر عبداللہ کی دو شادیاں تھیں۔ انہوں نے 1981 میں وفات پائی۔ مقبول عامر میٹرک 1970 میں ہائی سکول نمبر 2 بنوں سے پاس کیا۔ پھر ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا ۔ 1975 میں گومل یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔
پھر ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا لیکن ملازمت کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔ حبیب بنک میں ملازمت کے دوران انہوں نے اپنا تبادلہ پشاور کرا لیا تاکہ یہاں شاعروں اور ادیبوں سے ملاقات کے مواقع میسر آسکیں۔ پھر پشاور یونیورسٹی سے ایم اردو کا امتحان پاس کیا۔ لکچرر شپ کے لیے انٹرویو دیا لیکن کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
1984 میں بطور ریسرچ آفیسر اکادمی ادبیات اسلام آباد میں تقرری ہوئی۔ ان کی شادی 1978 میں تتر خیل کے زمیندار حاجی کالو خان کی صاحب زادی زبیدہ خانم سے ہوئی جن سے ان کے تین بچے پیدا ہوئے۔ جوانی میں ایک خطرناک بیماری سکلیروڈرما میں مبتلا ہو گئے جس سے ان کی انگلیوں کی پوروں میں سوجن اور سختی پیدا ہوگئی۔
علاج کے لیے لندن کا سفر کیا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ 13 مئی 1990 میں ان کو دن کا دورہ پڑا اگلے روز یکم جون کو انہیں جھڈی خیل میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کی قبر پر خود ان کا شعر کندہ ہے۔ ان کا صرف ایک مجموعہ دیئے کی آنکھ ان کی زندگی میں ہی 1990 میں اسلام آباد سے شائع ہوا۔ ان کی شخصیت اور فن پر جامعہ پشاور سے ایم اے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کا تحقیقی مقالہ تحریر کیا جا چکا ہے۔ دئیے کی آنکھ کا پشتو میں ترجمہ دانش نے 2008 میں کیا۔ جس کا نام انہوں نے د ڈیوے سترگے رکھا۔ میں مر گیا ہوں وفا کے محاذ پر عامر پس شکست بھی میرا وقار باقی ہے
ہم اہل شب کے لیے صبح کا حوالہ ہے دئیے کی آنکھ میں آنسو نہیں اجالا ہے
دیدۂ تر نے بڑی دیر میں پہچانا اسے روپ کھوبیٹھا ہے دو چار ہی سالوں میں کوئی
دشتِ بے آب سے پوچھو کہ وہاں کے اشجار کن مراحل سے گزرتے ہیں نمو پانے تک
میں ایسے کھیت کا دہقان ہوں جہاں عامر زمین بھوک اگاتی ہے ہر بشر کے لیے