ابھی قوم کا درد رکھتے ہیں کچھ لوگ

Nawaz

Nawaz

زندگی میں اہر انسان چاہتا ہے کہ مجھے زندگی کی ہر سائش ملے میرامستقبل در خشندہ ہو زندگی کی تمام بنیادی سہولیات حاصل ہوں مگر آج کے دور میں ایسے انسان کم ہی ملیں گے جو دوسروں کیلئے جیتے ہیں دوسروں کا درد رکھتے ہیں ، عمران شوکت بھی انہی لوگوں میں شا مل ہیں۔ بچپن سے لیکر آج الحمد اللہ وہ جوان ہے ۔ میں اسے ذاتی تو پر جانتا ہوں اور دوران تعلیم اس کی کیا سرگرمیاں تھیں چھٹی کے بعد ہاتھوں میں کتابیں لیکر جب یہ میری دکان کے آگے سے گزرتا سلام کرتا اور گزر جاتا گھر سے واپسی نماز کیلئے جاتا سلام کرتا چلا جاتا اگر کہیں میری اس سے راستے میں ملاقات ہوتی تو مصافہ یعنی دونوں ہاتھ ملاتا اور چلاجاتا، کم اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی کا جذبہ عمران شوکت میں بھرا ہواتھا بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے جوانی، پرائمری سے میٹرک، میڑک سے ایف ایس سی اور اعلیٰ نمبروں سے انجینئر نگ کی ڈگری اس کے شب و روز محنتوں اور مشقتوں کا ثمرہ تھا۔

مگر عمران شوکت ایک ایسے کردار، گفتار، کا نوجوان ہے، آج بھی مجھے ملتاہے اسی طریقہ اور مودبانہ اندازہ، خلوص، عقیدت، اس کی گفتار سے خوشبو آتی ہے۔ جب وہ بولتا ہے، توصاف دل و زبان کا امتیاز، منافقت اور کدروتوں سے دور جب وہ گزرکر آگے جاتا ہے۔ تو دل سے دعا نکلتی ہے۔ اسی لئے مجھے اس کی دوستی پر فخر ہے اور میرے اچھے دوستوں میں ایک نیا اضافہ مجھے بھی اس کی دوستی پر فخرہے۔ میں کوئی نئی چیز سیکھتا ہوں حالانکہ مجھ سے وہ شاید 20سال چھوٹا ہے میرا تجربہ اور اس کی عمر شاید پھر بھی میں اس سے بڑا ہوں عمران شوکت ایک ایسا نوجوان ہے جب باپ سے ملتاہے تو اس کے تمام حقوق کا خیال رکھتے ہوئے ملتا ہے، جب بھائی سے ملاقات کر تا ہے، تمام ادب واحترام کا خیال رکھتے ہوئے اسے پذیرائی دیتا ہے، جب دوست سے ملتا ہے، تو دوستی کے تمام اصول وضوابط کاخیال رکھتے ہوئے اتنا ڈوب جاتا ہے کہ پھر بھی تشنگی باقی رہتی ہے عمران شوکت ایک انجینئر نگ لائن کا نوجوان یہ اسلام آباد کی انجینئرنگ یو نیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے والا اور اونچے طبقوں اور جرنیلوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز بیور کریٹس کے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنے والانوجوان ہے مگر جب اپنے گائو ں آتا ہے، اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آتی، میٹھی گفتار و عقیدت والفت کے پھول اور گفتار میں خوشبو آتی ہے وہ ایک انجینئر ہے ایک اعلیٰ منتظم اور ایک اچھا شاعر بھی ہے۔

انہوں نے اپنے شعری مجموعہ کا نام بھی عجیب رکھا ، ڈوبتے سورج کی دھوپ، مجھے بھی انہوں نے ایک کتاب گفٹ کی اس کے اندر ٹائٹل شعر مجھے بہت پسند آیا ، بہت کٹھن ہے، بہت خاردار ہے رستہ، اپنی ذات کے شجر کرنے نکلاہوں اور اس نے اپنی شاعر کے اندر بھی پیار محبت، عقیدت والفت کے پھول نچھاور کیے ہیں عمران شوکت ایک خوددار انسان بھی ہے، چاہے سب کچھ لٹ جائے جب وہ فیصلہ کرتا ہے تو اس پر ڈٹ جاتا ہے اسی خودداری اور باضمیر ی نے اس کے کردار میں مذید نکھار پیدا کیا ہے اور یہی چیزیں انسان کو بلندیوں پر لے جاتی ہیں، اسی جذبہ اور خودی نے اس کو اپنی اندر جلنے والے چنگاری نے مزید الائو دیا اور ٹیلی نار کمپنی کی 50ہزار تنخواہ، کار کوٹھی، آفیسر پروٹوکول تمام چیزوں کو ٹھوکر ماکر ایک سکول کا سرپرست ایک اچھا ٹیچر قو م وملک کی خیر خواہی نے لاکھوں روپے لگانے پر مجبور کر دیا اور اپنے اندر جلنے والی آگ اور قوم کے بچوں میں اپنے اندر کی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر انکی تعلیم و تربیت کی آبیاری کر رہا ہے میں نے ایک دن عمران بھائی کے ابو سے ڈرتے ڈرتے پوچھا بھائی شوکت غنی عمران بھائی نے ایک پرائیویٹ سکول خرید لیا ہے ۔ اور نوکری چھوڑ دی ہے۔

بھائی شوکت غنی صاحب ماشاء اللہ صوم و صلوة کے پابند اللہ سے اللہ سے ڈرنے والے مگر مزاج میں تھو ڑی سختی عام آدمی کیلئے اُنکی شخصیت ایک متنا زعہ بنا دیتی ہے۔ مگر وہ ایسے ہیں نہیں۔ بھائی شوکت غنی نے فو راًمیرے سوال کا جواب بھی ذرا تُرش مزاجی سے دیا اور مجھے کہا تو اس لڑکے کی سمجھ نہیں آتی کبھی نو کری کرتا ہے اور کبھی نوکری چھو ڑ دیتا ہے۔ پھر میں نے مزید سوال کرنے کی جرات نہ کی اور مجھے خیال آیا کہ بھائی شوکت غنی ایک بزنس مائنڈ رکھتے ہیں، اور اتنے پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں۔ بہر حال ایک اچھے انسان ہیں اور اللہ کی ذات پر کامل و مکمل یقین رکھتے ہوئے اپنے فیصلے منوانے اور ٹھونسنے کے عادی نہیں ہیں۔ عمران شوکت چونکہ اپنے گھر میں بڑے بھا ئی ہیں۔ باقی تما م بہن بھا ئی اُس سے چھو ٹے ہیں اسلئے اُنکے فیصلہ کو کو ئی چیلنج نہیں کر تا۔

گذشتہ روز اُنکے سکو ل کا پہلا فنکشن تھا اور عمران بھائی نے خصو صی طور پر مجھے کا رڈ بھی لکھا اور فو ن کیا اور فنکشن میں خصوصی شرکت کی دعوت دی۔ میں حیران رہ گیا کہ عمران شوکت نے اس مختصرمدت میں غازی ایجو کیشن سکو ل سسٹم میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کو تربیت دی۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ طلبہ و طا لبا ت کسی فیڈرل ایریا اسلام آبا د کے کسی سکول کے بچے ہیں۔ یہ عمران بھائی کے ادارہ کے اساتذہ کی کا وش کا نتیجہ ہے۔ جب آخر میں سرپرست اعلیٰ غازی ایجو کیشن سکول سسٹم عمران شوکت کو سٹیج پر دعوت دی گئی اور عمران بھا ئی نے اپنے دھیمے انداز میںمہمانا ن گرامی کا شکریہ ادا کیا اور اپنے خوبصورت لب و لہجہ میں ملک و قوم کی ترقی علم حاصل کر نے میں ہے میں بڑی عمیق نظروں سے عمران شوکت کی طرف دیکھ رہا تھا اور محسوس کر رہا تھاکہ اس نو جوان کو قوم کا کتنا درد ہے۔

اگر ہما رے معاشرے میںایسے مثبت سو چ رکھنے والے افراد ہوں جیسے عمران شوکت اپنی قوم و ملک کا دردلیکر اور کا ر، کو ٹی ، نوکری کو ٹھوکر مارکر ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ جو پُر خطر اور پُرخوار ہے۔ مگر جن کے جذبے جوان ہوں وہ مشکل سے مشکل پگڈنڈیوں پر چل کر بھی اپنی منزل پا لیتے ہیں۔

تحریر : حکیم محمد اشرف ثاقب