اصغر خان کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

Rohail Akbar

Rohail Akbar

سیاستدانوں میں پیسوں کی بندر بانٹ کے 20سال اور ائرمارشل اصغر خان کی رٹ جمع ہونے کے 16 سال بعد آخر کار جمعہ 19 اکتوبر 2012 ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے سے متعلق اصغرخان کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے جس میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ’ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی اور حبیب بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے ایف آئی اے کو ہدایت کی ہے کہ وہ رقوم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف تحقیقات کرکے بانٹی گئی رقم منافع سمیت وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرائے’ ایوان صدر یا آئی ایس آئی میں سیاسی سیل موجود ہے تو ختم کیا جائے’ فوج کا کام سیاست میں مداخلت نہیں حکومت کے تابع رہ کر ملکی جارحیت کا دفاع کرنا ہے’ 1990 کے الیکشن میں دھاندلی سے سیاسی عمل کو آلودہ کیا گیا اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے’ صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے’ کسی ایک جماعت کی حمایت کرنا صدر مملکت کو زیب نہیں دیتا’ فوجی جمہوری حکومت کو غیرمستحکم کرنے کا اقدام نہیں کرسکتی۔

سپریم کورٹ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کچھ وقت کے لئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ بعدازاں عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے اصغرخان کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ صدر کسی مخصوص گروپ کی حمایت نہیں کرسکتا وہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے۔ ہم جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ اس مقصد کے لئے بھرپور کوشش کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے 16 نکات پر مشتمل مختصر فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام نے جمہوریت کے لئے طویل جدوجہد کی ہے۔

پارلیمانی اور جمہوری نظام پاکستان کی اہم ضرورت ہے۔ یہی نظام وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہو رہا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 1990 کے انتخابات بدعنوانی پرمبنی تھے۔ سابق صدر غلام اسحاق خان آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا پورا حق اور آزادی حاصل ہے۔ آئین پاکستان کے تحت عوام کی منشا اہم ہے۔ آئین کہتا ہے کہ ریاست اپنی اتھارٹی منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے۔ انتخابات کا بلاخوف اور بلاحمایت ہونا لازمی ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان میں جمہوری نظام ہوگا۔ انتخابات بلاخوف و خطر اور مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اسے زیب نہیں دیتا کہ کسی ایک گروپ کی حمایت کرے۔ 1990ء کے انتخابات میں ایوان صدر ‘اس وقت کے آرمی اور ڈی جی آئی ایس آئی بدعنوانی کے مرتکب ہوئے ۔ ایک گروپ کو کامیاب کرانے کے لئے رقوم تقسیم کی گئی اور انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ پاکستان کے شہری آزادانہ انتخابات کا حق رکھتے ہیں۔ تمام افراد کے ساتھ یکساں سلوک نہ کرنے پر صدر کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ صدر وفاق کی علامت ہے۔ اسے غیرجانبدار رہنا چاہئے۔ غلام اسحاق خان کے عمل نے آئینی تقاضوں کو پامال کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 1990 میں سیاسی جماعتوں میں رقوم کی تقسیم اداروں کا نہیں افراد کا عمل تھا۔ ایوان صدر میں سیاسی سیل موجود تھا اور اس الیکشن سیل کا کردار غیرآئینی اور غیراخلاقی رہا۔ الیکشن سیل نے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی غیرقانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے۔ یونس حبیب نے 140 ملین روپے کی منتقلی کا اعتراف کیا۔

Supreme Court

Supreme Court

عدالت نے حکم دیا کہ اسلم بیگ’ اسد درانی اور یونس حبیب کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور جن سیاستدانوں نے رقوم لی ایف آئی اے ان کے خلاف انکوائری کرے اورتقسیم کی گئی رقم منافع سمیت وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرائی جائے اور ملوث سیاستدانوں کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔ عدالت نے حکم دیا کہ ایم آئی کے اکاؤنٹ نمبر 313 میں موجود 8 کروڑ روپے کی رقم بمع سود حبیب بینک میں جمع کرائی جائے اور اسلم بیگ اور اسد درانی کا عمل فوج کی بدنامی کا باعث بنا۔ فوج حکومت کے تابع رہ کر غیرملکی جارحیت کا دفاع کرنے میں حکومت کی مدد کرسکتی ہے۔ تاہم سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی اس لیے مکمل تحقیقات کے بغیر سیاستدانوں کے خلاف کوئی حکم نہیں دیا جاسکتا۔

اگر ایوان صدر یا آئی ایس آئی میں کوئی سیاسی سیل موجود ہے تو اسے ختم کیا جائے۔ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں۔ کوئی ادارہ سیاست میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ فیصلے میں دفاع وطن کے لئے پاک فوج کی قربانیوں کو سراہا گیا۔

تحریر : روہیل اکبر