مظلوم ملالہ

Malala Yousafzai

Malala Yousafzai

غفلت کی گہری نیند سوئے ہوئے ذہنوں کو جگانے والی ممتاز ہستی جناب علامہ اقبال صاحب نے فرمایا تھا کاش انسان اس راز سے آگاہ ہو جائے کہ اس کو وہ کچھ عطا ہوا ہے جو شمس و قمر کو بھی نہیں یعنی شعور اور شخصیت ….ایسا ہی راز پانے کیلئے وہ اپنے اردگرد وحشت کا ولولہ دیکھ رہی تھی،وہ جہالت کا جوش بھی دیکھ رہی تھی،اسے ظلم کے مناظر بھی مغموم کر رہے تھے،وہ بے دین کو درندگی کی دولت سے مالا مال ہوتے ہوئے بھی دیکھ رہی تھی، وہ مصائب کے ماحول میں سفاکی کے ساز بھی سن رہی تھی، وہ بے وقار جہادیوں کے جہاد کے انداز بھی حیرت اور حسرت سے دیکھ رہی تھی۔

وہ کم سنی میں تڑپتی اور سسکتی لاشوں کی آہیں اور سسکیاں سن کر سہم بھی رہی تھی۔اس نے ابھی پوری طرح شعور کے آنگن میں قدم بھی نہ رکھے تھے کہ اس کے شعور کے سبھی نگینے یاقوت کی طرح چمکنے لگے اس نے اسی چمک کی روشنی میں اپنی ساری صلاحیتیوں کو دماغ کی دھرتی پہ یکجا کیا اور قلم تھام کرتمام مظالم کو لفظوں میں پرونا شروع کر دیا ۔خدا نے اسے لکھنے کا فن عطا فرمایا اور وہ اپنے قلم کی نوک سے بم،بارود اور بندوق کا بڑی ہمت سے مقابلہ کرنے لگی۔یہ با ہمت بچی ملالہ یوسف زئی ہے جس نے مئی1998میں سوات کے صدر مقام مینگورہ میں ضیاالدین کے گھر میں آنکھ کھولی،ملالہ جیسے جیسے جہالت و بربریت کے جدیداقدامات دیکھتی رہی انہیں اپنی ڈائری پہ رقم کرتی رہی،ملالہ نے جب دیکھا کہ جہالت کے جوگی علم کی شمع بجھا کر انسانیت کو تاریک رستوں کی سمت لے جانا چاہتے ہیں تو اس نے اپنے تازہ خیالوں کو عمدہ لفظوں میں ڈھالا اور پھر انہیں سمیٹ کرصفحات کے سائے میں جمع کیاا ور یوں لفظوں کا ایک قافلہ تیار کیا۔

سوات 2009 میں فوجی آپریشن سے پہلے حالات انتہائی نازک تھے طالبان کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پاپندی لگائی جا چکی تھی ایسے خطرناک حالات میں ملالہ نے 3جنوری2009کو گل مکئی کے فرضی یا قلمی نام سے بی بی سی اردو کو اپنی ڈائری پہ لکھے اپنے جری جذبات ،اپنے عمدہ خیالات اور ظالمانہ حرکات کے سارے پہلو پوسٹ کر دئیے تب وہ صرف گیارہ سالوں کی ایک کم سن لکھاری تھی اس نے اپنی تحریروں میں انتہائی جرات سے اپنی ہم سن طالبات کے تعلیمی شوق کی تکمیل کے سامنے جہالت کی رکاوٹوں کا تذکرہ کیا اس نے سکولوں کو بمبوں سے اڑانے والوں کو نام نہاد اور خود ساختہ جہادی لکھا ،اس نے اپنی تحریروں میں دہشت گردی کے حوالے سے خواتین کے تعلیمی حقوق،آزادی اظہار اور ظلم و جبر کے سبھی سلسلوں کوبے نقاب کر کے طالبان کی طرف سے مچائی گئی تباہیوں کو تحریر کا حصہ بنایا۔سوات میں طالبان کے عروج کے زمانے میں ملالہ کو بچوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے پر 19دسمبر2011کو پاکستان انٹر نیشنل پیس پرائز سے نوازا گیا۔

ملالہ ملکی اور غیر ملکی سطح پہ ایک بہترین شخصیت بنکر ابھر چکی تھی لیکن ہماری حکومت نے اسے چند انعامات سے نوازنے کے علاوہ اس کی سیکورٹی کے حوالے سے کوئی ادنیٰ سا بندوبست بھی نہیں کیا جبکہ یہ بچی پاکستان کا ایک بہترین مستقبل تھا بلکہ سوشل میڈیا پہ تو کچھ لوگ اس صدمے کا پرچار بھی کر رہے ہیں کہ پہلے ہم ارفع کریم جیسی ذہین بچی سے جدا ہو چکے ہیں اور اب ظالم ہم سے ملالہ بھی چھین لینا چاہتے ہیں،9 اکتوبر2012کو ملالہ اپنی ساتھیوں سمیت سکول سے وین پہ واپس گھر جا رہی تھی کہ گل کدہ نامی علاقے میں دو نامعلوم نقاب پوش دہشت گردوں نے وین کو روکااور بڑی گھبراہٹ اور لڑکھڑاتے لہجے میں پوچھا تم میں سے ملالہ کون ہے؟ ملالہ نے اپنے ہاتھوں سے اپنے آنچل کو ٹھیک کرتے ہوئے بڑی جرات اور بہادری سے کہا میں ملالہ ہوں بس یہ سنتے ہی بے ہمت اور بزدل دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کر دی ،ہونہار اور معصوم طالبات کی چیخ و پکار فضائوں میں بکھرنے لگیں،ملالہ اپنی ساتھیوں سمیت شدید زخمی ہو چکی تھی، پورا ملک سوگوار ہو چکا تھا،ہاتھ دعائوں کے واسطے بلند ہونے لگے،بلکہ میں نے کراچی کی میمن مسجد میں ایک سفید ریش بزرگ کو ملالہ کی خیروعافیت کیلئے دعا مانگتے ہوئے زار وقطار روتے ہوئے بھی دیکھا ۔

Taliban

Taliban

ملالہ پہ قاتلانہ حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کر لی اور مجھے سمجھ نہیں آتی کہ طالبان اس بچی کی سوچ سے اتنا خوفزدہ کیوں تھے؟یہ ایک انتہائی بزدلانہ حملہ تھا کیونکہ ہمارا مذہب ہمیں عورتوں کی آبرو،وقار،ادب،تعظیم اور عزت کا درس دیتا ہے ۔یہ کوئی بہادری نہیں کہ نہتے مرد و زن پہ حملے کئے اور بھاگ گئے۔ایم کیو ایم کے الطاف بھائی نے بھی ملالہ کے حوالے سے واضح کہا کہ پاک فوج طالبان کے خلاف اعلان جنگ کرے قوم ان کے ساتھ ہے ۔الطاف بھائی نے کہا کہ ہمارا مذہب ایک پر امن مذہب ہے کیونکہ دین  وہ واحد مذہب اسلام ہے جس میں نہ کوئی جبر ہے،نہ کوئی تکلیف،نہ کوئی دکھ ہے نہ درد،نہ کوئی دقت ہے نہ دشواری، اورنہ کہیں رنج و غم ہے،پھر طالبان والوں نے کیوں ایک معصوم بچی کو مارنے پہ اتر آئے ۔الطاف بھائی نے چیف جسٹس سے بھی ملالہ پہ حملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔مجھے اکثر بھارتی فلمساز مہیش بھٹ کی وہ بات یاد آتی ہے کہ ڈرا ہوا آدمی مسلمان نہیں ہو سکتا کیونکہ جہاں ڈر ہے وہاں اسلام نہیں اور جہاں اسلام ہے وہاں ڈر نہیںاس لئے کہ مسلمانوں کے عظیم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسان تو انسان حیوان پہ بھی تشدد سے منع کیا ہے۔

خدا جانے کیوں اور کس لئے وہ نقاب پوش اس معصوم سی لڑکی کو قتل کرنے پہ آمادہ ہو چکے تھے جس بچی کا بس اتنا سا ہی جرم تھا کہ وہ جہالت کے اندھیروں میں علم کے دئیے جلا نا چاہتی تھی،وہ بچوں میں ہمت اور حوصلے کی فضیلت کو فوقیت دے رہی تھی،وہ عورتوں کی عزت و عظمت کی فلاح کیلئے بے چین تھی،وہ انتہا پسندی کی مخالف تھی،وہ بربادیوں سے متنفر تھی،وہ ظلم سے نفرت کا اظہار بے باک طریقے سے کر رہی تھی،وہ ذہنی نابینائوں اور عقل کے اندھے لوگوں کو امن کی اراضی پہ منتقل ہونے کا پیغام دے رہی تھی،وہ خون خرابے کا اختتام چاہتی تھی،لیکن افسوس اس ملک میں خوشیوں کی خواہش رکھنے والی ، اس دھرتی پہ امن،سکون اور سلامتی کے سپنے دیکھنے والی،اس زمین پہ لوگوںمیں زندہ ضمیری،برداشت اورتحمل کی تجلیات دیکھنے کی آرزو رکھنے والی مظلوم ملالہ کو بھی برداشت نہیں کیا جا رہا۔

تحریر : خرم میثم