الطاف وعمران بھائی! پلیزذرا بھونک بھونک

altaf hussain

altaf hussain

ہماری قوم جو گزشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے آزاد ہونے کے باوجود بھی ذہنی و جسمانی طور پر آج بھی آزاد نہیں ہوسکی ہے اِس کی سوچوں اور حرکات وسکنات پر اِس کے اپنے اور پرائے آقاؤں کا اُسی طرح کا کڑاپہراہے جس طرح ماضی میں آقا اپنے غلاموں پر لگایا کرتے تھے یعنی یہ کہ نہ اِس کا قلم آزاد ہے اور نہ ہی اِس کی زبان جو اپنے احساسات اور دکھوں کوآزادانہ طور پر لکھ سکے یا عوامی مقامات پراپنے دُکھ اوردرد اور حکمرانوں کی جانب سے ملنے والی پریشانیوں اور مسائل کو بیان کرکے کچھ سکون اور تشفی حاصل کرسکے۔ الغرض یہ کہ آج بھی اغیار کے زرخرید ہمارے حکمران اپنی قوم کی آزادی کو سلپ کرنے کے طرح طرح کے منصوبے بنارہے ہیں اور قوم کو اِس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر اپنے اقتدار کی گاڑی کھینچنے میں مصروف ہیں اور یہی ہمارے وہ حکمران ہیں جو عوام کی محنت اور خون پسینے سے کمائی جانے والی اُس قومی دولت کو جو قومی خزانے میں جمع ہے اِس کواپنے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیںاور قوم کو ہر طرح کی سہولیات زندگی سے محروم رکھ کر قومی خزانے کو اپنی عیاشیوں اور مزے کے لئے خرچ کررہے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ اِسے اپنے آباؤاجداد کا حقِ اولین سمجھ کر بیرونِ ملکوں میں قائم بینکوں میں اپنے کھولے گئے کھاتوں میں ا پنے ،اپنی بیوؤںاوراپنی اولادوں کے نام سے بھی قومی رقوم جمع کرواکر اپنی آئندہ کی زندگیوں کو پُرآسائش بنانے کا نہ صرف ارادہ رکھتے ہیں بلکہ اِس کا دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ اِن کے بعد اِن کی بیوائیں اور اولادیں ملک کی غریب عوام کی طرح ہاتھوں میں کشکول اٹھائے در ، در کی بھیک نہیں مانگیں گیں بلکہ یہ اپنے پیچھے اِن کے لئے بیرونِ ممالک میں قائم بینک کھاتوں میں اتنا کچھ چھوڑجائیں گے کہ یہ ملک کی غریب عوام پر اپنی اِسی طرح حکمرانی کریں گے جس طرح یہ آج کررہے ہیں جبکہ یہ امر حوصلہ افزاہے کہ ایسے میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قائد الطاف حُسین اور تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ عمران خان کے کراچی اورلاہور اور ملک کے طول وارض میں اپنی اپنی پارٹیوں کے فقیدالمثال جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اِن کی شکل میں جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے زہریلے پھنوں سے ڈسی اور بیمار قوم کو عنقریب دو ایسے مسیحا ملنے والے ہیں جوقوم کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے بلاشبہ الطاف حسین اور عمران خان کا ایک ہی مقصد ہے اور دونوں ہی ملک کو اُن عناصراور ٹولوں سے پاک کرنے کے لئے پوری طرح سے متحرک اور منظم نظرآتے ہیں جو ملک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور اِسی طرح جو گزشتہ کئی سالوں سے شکلیں بدل بدل کر اقتدار کی مسند پر اپنے قدم رنجاکرکے قوم کو مسائل کی چکی میں پیسنے کا کام کررہے ہیں اور قومی خزانے کو اپنی ذاتی عیاشیوں کے لئے خرچ کرکے اِس کا بیڑاغرق کررہے ہیں ۔ بلاشبہ الطاف و عمران کے جلسوں،جلوسوں اور ریلیوں میں وہ لوگ ہی ہوتے ہیں جو ملک میں کسی خونی انقلاب کے بغیر پرامن طریقے اور سکون کے ساتھ کسی مثبت اور تعمیری تبدیلی کے خواہش مند ہوتے ہیں اور اِن کے جلسہ گاہوں میں اکثریت صرف اِن سلجھے ہوئے سمجھدار نوجوانوں، بزرگوں ، خواتین اور طالبعلموں کی ہی ہوتی ہے جن کا سیاست سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتاہے اور نہ ہی یہ کسی پیشہ ور سیاسی مداری(ز، ن اور ش ) کے جلسوں، جلوسوں اور ریلیوںمیں جاناپسندکرتے ہیں ایسے افراد کا الطاف اور عمران کے جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں میں کثرت سے شرکت کرنااِس بات کا واضح اشارہ ہے کہ قوم موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں (زرداری اورنواز) کی فرسودہ پالیسیوںاور منصوبہ بندیوں سے بیزار آچکے ہیں اور اَب قوم آئندہ انتخابات میں اِنہیں اپنی ووٹوں کی طاقت سے شکست دے کر اِنہیں نشانِ عبرت بنادے گی اور یہ (نواز، زرداری) ماضی کا حصہ بن کر رہ جائیں گے۔
پھر پاکستان کے اِس کونے سے اُس کونے تک الطاف حُسین اور عمران خان کا مشترکہ اقتدار کا سورج اپنے پورے آب وتاب سے طلوع ہوگا جس کی روشن کرنیں ملک میں ایک مثبت اور تعمیری انقلاب کی نوید بن کر میرے ملک کے ہر غریب کے آنگن میں رقص کریں گیں اور میرے وطن کا ہر غریب خوش وخرم زندگی گزارے گامگر اِس کے لئے بہت ضروری ہے کہ الطاف و عمران بھائی پلیز ذراسنبھل کراور بھونک بھونک کر قدم اُٹھائیں کہیں ایسانہ ہوجائے کہ کسی دشمن کی نظر لگ جائے اور وہ اپنی سازشوں اور عیاریوں اور مکاریوں سے ایساکچھ کرجائے کہ آپ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکیں اور اقتدار کی ہوس میں مبتلا پرانے کھلاڑی ایسے حالات پیداکردیں گے آپ لوگ انتخابا ت کا بائیکاٹ جائیں اور یہ دوبارہ اقتدار میں آجائیں اور ہاں ذرایہ با ت بھی آپ اپنے ذہنوں میں ضرور رکھیں کہ آ پ کی کامیابیوں کا اندازہ لگاکر آج ماضی کے کچھ مایوس افراد آپ کی پارٹیوں میں شمولیت اختیارکررہے ہیں کہیں یہی آپ کی ناکامیوں کے اسباب نہ بن جائیں اور آپ اِن کی وجہ سے اپنی بنی بنائی ساکھ خراب کربیٹھیں لہذاضرور ت اِس امرکی ہے کہ آپ دونوں(الطاف حُسین اور عمران خان)اپنی پارٹیوں میں جس کسی کو بھی اَب شامل کریں پہلے اِس کوپرکھیں پھر اِسے اپنے یہاں جگہہ دیں ورنہ میری یہ بات ضرور یاد رکھیں یہی وہ مایوس عناصر ہیں جنہیں عوام پہلے ہی رد کرچکے ہیں اور اگر یہ آپ کی پارٹی میں شامل ہوکراپناکھویاہوامقام حاصل کرنے کے چکر میں شامل ہورہے ہیں تو یاد رہے کہ عوام اِنہیں ایک مرتبہ پھر ردکردیں گے جن کی وجہ سے آپ کی پارٹیوں کا وقار مجروح ہوگا اور آپ اپنے مقصد سے ہٹ جائیں گے اور اِس کے ساتھ ہی ایک بات اور جناب الطاف بھائی اور جناب عمران بھائی کی خدمت میں ہم حقیر فقیر بے توقیر عرض کرتے چلیں کہ براہ کرا م آپ دونوں کوئی ایسی ویسی غلطی مت کربیٹھیے گاجس کی وجہ سے موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں (زرداری اور نواز اینڈکو ) کو آئندہ الیکشن میں فوائد حاصل ہوجائیں اور آپ کسی کو اپنا اتحادی بنانے کے بجائے اُس کے اتحادی بن کر اِس کی اقتدار کی کمر کو مضبوط کردیں ویسے پھر بھی ہم یہ بھی کہناچاہیں گے کہ ایسا لگتاہے کہ امریکا ہمارے موجودہ صدر عزت مآب جناب آصف علی زرداری کی اَب تک کی پالیسیوں سے خوش اور مطمئن ہے اور ایک بار پھر امریکا یہ ہی چاہ رہاہے کہ آئندہ ملک میں ہونے والے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو ہی اقتدار سونپ کر صدر زرداری کو پانچ سال کے لئے دوبارہ صدر بنادیا جائے مگر اِس کے باوجود بھی ہم الطاف بھائی اور عمران بھائی سے یہی کہیں گے کہ یہ دونوں اشخاص اپنی اپنی مثبت اور تعمیری سیاست کو جاری رکھیں کیوں کہ عوام آپ کے ساتھ ہے۔تحریر : محمداعظم عظیم اعظم