انسان

empty hands

empty hands

قدرت کا عجیب یہ ستم ہے!
انسان کو راز جو بنایا

راز اس کی نگاہ سے چھپایا
بے تاب ہے ذوق آگہی کا

کھلتا نہیں بھید زندگی کا
حیرت آغاز و انتہا ہے

آئینے کے گھر میں اور کیا ہے
ہے گرم خرام موج دریا

دریا سوئے سجر جادہ پیما
بادل کو ہوا اڑا رہی ہے

شانوں پہ اٹھائے لا رہی ہے
تارے مست شراب تقدیر

زندان فلک میں پا بہ زنجیر
خورشید ، وہ عابد سحر خیز

لانے والا پیام بر خیز
مغرب کی پہاڑیوں میں چھپ کر

پیتا ہے مے شفق کا ساغر
لذت گیر وجود ہر شے

سر مست مے نمود ہر شے
کوئی نہیں غم گسار انساں

کیا تلخ ہے روزگار انساں!

علامہ محمد اقبال