اہل ایمان بھائی بھائی ہیں

imtiaz ali shakir

imtiaz ali shakir

اسلامی تہذیب وتمدن کی اپنی منفرد دحیثیت ہے جس کو دنیا کی کوئی بھی طاقت جھٹلا نہیں سکتی بلکہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ غیر مسلم اسلامی تعلمات پر عمل کرنے کو بہت زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔اسلامی تہذیب تمدن عقائد ،اصول ونظریات اورروایات ہی مسلم وغیر مسلم معاشرے کے فرق کوواضح کرتیںہیں ۔اسلام کاایک منفرد اور جداگانہ ضابطہ حیات ہے چنانچہ اسلامی تہذیب اسی ضابطہ حیات کی عکاسی کرتی ہے۔اسلامی تہذیب کا سنگ بنیاد حیات دنیا کا یہ تصور ہے اور انسان کی حیثیت اس کرئہ خاکی میں عام موجودات کی سی نہیںہے بلکہ وہ خالق کائنات کی طرف سے یہاں خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے ۔اس لیے انسان کااصل نصب العین یہ ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک اور آقا (اللہ تعالیٰ)کی خوشنودی حاصل کرے ۔

اسلام انسانوں کے درمیان اونچ نیچ کے امتیازکی نفی کرتے ہوئے ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ اس طرح بلاامتیاز جوڑتا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اسلامی تمدن کی ایک بڑی خصوصیت اسلامی اخوت یعنی بھائی چارے کا نظریہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رشاد فرمایاہے ۔”بلا شبہ اہل ایمان بھائی بھائی ہیں ۔سوتم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرادیا کرو” لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہم مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں ہیں اورقارائین محترم کسی مذہب یا فرقے کا پیروکا رہونے سے پہلے انسان ہونا لازم ہے کیونکہ جانوروں پر مذہب،فرقوں ،جمہوریت وآمریت کااطلاق نہیں ہوتا اسی لیے وہ بڑے پرسکون انداز میں زندگی گزار تے ہیں ، انسان کو زندگی گزارنے کے لیے جن اہم چیزوں کی ضرورت ہے ان میں جمہوریت کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے جمہوریت ہو یا آمریت عوام کو اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے با عزت روزگار کی ضرورت ہوتی ہے ۔

باعزت روزگار یعنی بھیک مانگے بغیرْاپنی مائوں،بہنوںاوربیٹیوںکی آبروکومحفوظ رکھتے ہوئے ۔ایسی مزدوری جو مزدور اور اس کے خاندان کا پیٹ پال سکے ۔جوریاست کی ذمہ داری ہے ۔لیکن جس دور میں انسان کی کوئی قیمت نہ ہووہ دورجمہوری ہو یا آمرانہ کچھ فرق نہیں ۔کچھ ایسی جمہوریت اس وقت رائج ہے آج کل میرے وطن میں اعلیٰ حکمران اپنے ہی بیان پر قائم نہیں رہتے ۔مسائل گننے کا وقت بھی اب ختم ہو چکا اب تو اگر کوئی بہتری باقی ہے تو اس کی بات ہونی چاہیے ۔غریب عوام تو پچھلے 65برس سے مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں ۔مگر آج کل پاکستان کی تاریخ کی طویل ترین جمہوریت بھی شدید مشکلات میں ہے ۔

Supreme court

Supreme court

این آر او، ایبٹ آبادآپریشن ،میموگیٹ اور پھر پاکستانی چوکیوں پر نیٹو افواج کے حملہ اور پھر نیٹورسد کی سپلائی کی بندش پر سیاست اور سب سے بڑھ کر سوئس حکام کو وزیراعظم کا خط لکھنے سے انکارجس بعد سپریم کورٹ نے ایک وزیراعطم کو بھیج دیا گھراور ابدوسرے وزیراعظم کے سرپر لٹکتی ہوئی خط کی تلوار نے قوم کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کو اس قدر پریشان کردیا ہے کہ آج کل عام آدمی کی مشکلات میںکمی کی بجائے ان میں اور بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔عام عوام کی مشکلات کیا ہیں ۔روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی ،بد امنی،بے روز گاری،وسائل کم ہونے کی وجہ سے صحت وتعلیم کے حصول سے دوری،بجلی و گیس اور سی این جی کی لوڈشیڈنگ جس کی وجہ سے بے روزگاری میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔

عام آ دمی کی زندگی میں اس کے علاوہ بھی بہت سی مشکلات ہیں ۔افسوس کہ جن کو عوام کی مشکلات کاحل نکا لنا تھا وہ سب مل کر جمہوریت بچانے کی جنگ لڑرہے ہیں ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاست دان پچھلے 65سال سے جمہوریت کا رونا رو رہے ہیں لیکن عوام نہیں جانتی کہ جمہو ریت کس چڑیا کا نام ہے ۔قارائین آپ ابھی اپنے قریبی بازار چلے جائیں اورلوگوں سے سوال کریں کے جمہوریت کیا چیز ہے ۔جمہوریت کا کیا مطلب ہے۔تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ سومیں سے دو یا چار لوگ ہی جمہوریت کو تھوڑا بہت سمجھتے ہیں باقی کو جمہوریت کے بارے میں کچھ علم نہیں یہ بات اتنی حیران کن بھی نہیں جب لوگوں کو دن رات محنت مزدوری کرنے کے بعد بھی اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے دو وقت کا کھانا دستیاب نہ ہو ۔جب مائیں اپنے بچوں کو اسکول کی بجائے صرف اس لیے کسی ہوٹل یا ورکشاپ میں ڈال دیں کہ ان کے بچوں کووہاں دووقت کا کھانا مل جائے گا اور ان کے بچے بھوک سے تڑپ ترپ کر مرنے سے بچ جائیں گے ۔

تب لوگوں کا دماغی توازن درست نہیں رہتا لوگ پاگل ہوجاتے ہیں ۔اورپاگلو ں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ان کے ملک میں آمریت ہو یا جمہوریت ان کوتو اچھے معالج کی ضرورت ہوتی ہے اور اچھے سے اچھا معالج بھی تب تک کسی مریض کا علاج نہیں کرسکتا جب تک مریض کے پیٹ میں اچھی غذا نہ جائے ۔آج کی سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ جب انسان کے جسم کو پوری غذایت دستیاب نہ ہو تو انسان کا جسم اپنے آپ کو کھانا شروع کردیتا ہے ۔بڑے ہی دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج میری قوم کاحال بھی کچھ اسی طرح کا ہے ۔ایسے میں قوم کو کسی نئے حکمران کی نہیں بلکہ کسی مسیحا کی ضرورت ہے۔اس کا تعلق چاہے کسی جمہوری پارٹی ہو یا نہ ہو۔لیکن افسوس کہ آج اہل اقتدار کو اس بات کی فرصت نہیں کہ وہ عوام کی مشکلات کوحل کریں اور جن کے پاس اقتدار موجود نہیں ان کو بڑی جلدی ہے ۔

اقتدار میں آنے کی ایک طرف تو میاں نوازشریف کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت غیر فال ہو چکی ہے اورموجودہ حکمران ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اوردوسری طرف ان کا کہنا ہے وہ جمہوری حکومت کو گرنے نہیں دیں گے ۔میاں نوازشریف اس قسم کے بیانات سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔یہ تو وہ خود ہی جانتے ہیں یا خدا جانتا ہے۔لیکن میں یہاں میاں نوازشریف سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ جن کو سیاست دان آمر کہتے ہیں انہی لوگوں کے سہارے الیکشن جیتنے والے کس طرح خود کو جمہوریت پسند کہہ سکتے ہیں ۔اوراگر ایسا نہیں ہے تو کیوں آج کل سیاست دانوں کی نظریں ایجنسیوں کی طرف لگی ہوئی ہیں ۔قارئین مسلم لیگ ن تو اس بات کا پہلے بھی اعتراف کر چکی ہے کہ ان کوماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمائت حاصل تھی لیکن عمران خان نے جس تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا اور جو سونامی چلایا تھا وہ کیا ہوا ۔

PTI & PML N

PTI & PML N

عمران خان اور نوازشریف جس انقلاب کی بات کررہے ہیںیہ انقلاب بھی ماضی کی طرح سیاسی بیان بازی کا حصہ ہیں یا ان میںکوئی حقیقت بھی ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔لیکن یہ بات طے ہے کہ اگر عام آدمی کے حالات زندگی بہتر نا ہوئے تو اس ملک جمہویت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی کیونکہ جب بھوکے مرتے لوگ سڑکو ںپر نکلیںگے تو سیاست دان ان کو معطمن نہ کر پائیں گے اور مجبورافوج کو ہی ایکشن لینا پڑے گا۔اگر سیاست دان جمہوریت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں ملک کے اداروں کو بحال کرنا ہوگااورجلد ازجلد ایسے منصوبے پر عمل کرنا ہوگا جن سے عوام کی زندگی میں بہتری لائی جا سکے ۔پاکستانی حکمرانوں کی آپس میں جانوروں جیسی لڑئی دیکھ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ سب اہل ایمان ہیں ۔ تحیریرامتیاز علی شاکر