بال ٹھاکرے

 

Bal Thackeray

Bal Thackeray

ایک برہمن انتہا پرست خاندان میں پیدا ہوئے۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل وہ ایک کارٹونسٹ تھے۔ اس کی جگہ چبھتے ہوئے فکروں نے لے لی ہے۔

ابتدائی زندگی
کارٹونسٹ کی حیثیت سے انہیں ابتدا میں کامیابی ملی لیکن جلدی ہی تنخواہ پر جھگڑا ہو جانے کی وجہ سے انہوں نے نوکری چھوڑ دی اور بمبئی سے غیر مراٹھی لوگوں کو باہر رکھنے کے لئے ایک تحریک شروع کی۔

شیو سینا
بال ٹھاکرے نے لسانی اور مذہبی بنیادوں پر بے روزگار نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا اور 1966 میں شیو سینا قائم کی جسے مراٹھی ہندو راجہ شوا جی کے نام سے منسوب کیا گیا۔ شوا جی کو بعض مورخ مغل بادشاہوں کے خلاف جدوجہد کے علم بردار کے طور پر پیش کر تے ہیں۔ بال ٹھاکرے کے مطابق یہ تنظیم صرف مراٹھی نوجوانوں کو انصاف دلوانے کے لئے قائم کی گئی تھی۔

غیر مراٹھیوں کے خلاف ان کی تحریک نے بہت بار تشدد کا رنگ اختیار کیا۔ شو سینا میں بال ٹھاکرے کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر نہیں ہے۔ پارٹی میں تنظیمی انتخابات کی بات کرنے کی بھی حماقت کوئی نہیں کرتا۔ جن لوگو ں نے آواز اٹھانے کی کوشش کی انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔

ان میں چھگن بھجبل بھی شامل تھے جو مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی بھی رہے۔ جب 1995 میں مہاراشٹر میں شیو سینا اور بی جے پی کی مخلوط حکومت بنی، تو حکومت سے باہر رہنے کے باوجود تمام فیصلے بال ٹھاکرے ہی کرتے تھے۔ اور انہوں نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ وہ ریموٹ کنٹرول سے حکومت چلاتے ہیں۔

ان کی پارٹی مرکزی حکومت میں بھی شامل رہی اور اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پر ہمیشہ دبائو قائم رکھتی رہی۔ شیو سینا کے ایک رکن پارلیمنٹ کی جانب سے وزیر اعظم کے قریبی معاونین پر بدعنوانی کے الزامات پر تو مسٹر واجپئی اتنا ناراض ہوئے کہ انہوں نے استعفے کی پیش کش کر دی تھی۔

بعد میں2005 اور 2006 میں ان کی پارٹی میں شدید اختلافات سامنے آئے۔ اور ان کے کئی کارکن ان کی آمرانہ پالیسیوں کی وجہ سے ان سے علیحدہ ہوگئے۔ حتی کہ ان کے بھتیجے نے علیحدہ ہو کر ایک نئی پارٹی بنائی۔

ہندوستانی تہذیب
شو سینا کی ویب سائٹ کے مطابق ہندوستان کی تہذیب ہندو ہے اور ہندوستان میں رہنے والے ہر شخص کو اسے ماننا ہوگا۔ 1992 میں جب بابری مسجد مسمار کی گئی تو بال ٹھاکرے نے کہا کہ یہ عظیم کام شو سینکوں نے انجام دیا تھا جس پر انہیں فخر ہے۔

ہٹلر کا مداح
بال ٹھاکرے کھلم کھلا ہٹلر کو اپنا سیاسی پیشوی تسلیم کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جرمنی کے فسطائی رہنما کے بارے میں لوگ جو بھی کہیں، ہٹلر نے جو بھی کیا جرمنی کے حق میں ہی کیا۔

ان کی پوری سیاست اسی نظریہ کے ارد گرد گھومتی ہے اور اپنے مسلمان مخالف نظریہ کو وہ اسی تناظر میں پیش کرتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کی مقبولیت میں ان کے اقلیت مخالف متنازعہ بیانات کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ قوم پرست طبقہ اس طرح کی باتیں سننا چاہتا ہے۔

حالیہ زندگی
امراض قلب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے زیادہ وقت گھر پر ہی گزارتے ہیں۔ ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ بال ٹھاکرے میں اب پہلے جیسی شدت باقی نہیں رہی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سچ ہو لیکن ان کے بیانات کی تندی اب بھی قائم و دائم ہے۔