بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو

shaheen

shaheen

ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا

جس سمت میں چاہے صفت سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج ِ سرِدارا

حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

محروم رہا دولت دریا سے وہ غواض
کرتا نہیں جو صحبتِ ساحل سے کنارا

دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

دنیا کو ہے پھر معرکئہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں پہ بھروسہ

تقدیرِ امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا

اخلاصِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بہ نوازند گدا را

علامہ محمد اقبال

Old Baloch's advice to son

Old Baloch’s advice to son