بھارت: کیا یوگی ادیتیہ ناتھ اگلے وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

 Yogi Adityanath

Yogi Adityanath

اترپردیش (اصل میڈیا ڈیسک) اترپردیش کے اسمبلی شروع ہوچکے ہیں۔ ریاست کے اقلیتوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر ہندو قوم پرست وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ دوسری مرتبہ اقتدار پر فائز ہوگئے تو اقلیتوں کے خلاف مبینہ ظلم و تشدد کا سلسلہ تیز ہوجائے گا۔

بھارت کی سیاسی لحاظ سے سب سے اہم اور سب سے بڑی آبادی والی ریاست اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کی پولنگ 10 فروری کو ہوچکی ہے۔ 403 رکنی ریاستی اسمبلی کے لیے مجموعی طور پر سات مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ آخری مرحلے کی پولنگ 7مارچ کو ہوگی جبکہ نتائج 10مارچ کو سامنے آئیں گے۔

اس اسمبلی الیکشن میں اترپردیش میں حکمراں بی جے پی کی قسمت داؤ پر ہے جہاں سے تقریباً پندرہ فیصد اراکین پارلیمان بھارت کے ایوان زیریں میں پہنچتے ہیں۔ اس طرح اترپردیش بھارت کے وزیر اعظم کے تعین میں اہم رول ادا کرتاہے۔ بھارت کے اب تک چودہ وزرائے اعظم میں سے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی سمیت نو وزرائے اعظم کا تعلق یو پی سے رہا ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوگی ادیتیہ ناتھ مستقبل کے بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار بن سکتے ہیں۔جس سے قوم پرستی میں اضافہ ہوسکتا ہے اور دائیں بازو کی انتہاپسندی میں شدت آسکتی ہے۔ ادیتیہ ناتھ وزیراعظم مودی سمیت حکمراں بی جے پی کے چوٹی کے رہنماؤں کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔
یوگی ادیتیہ کا اصل نام اجے موہن بشٹ ہے

ادیتیہ ناتھ کی حکومت میں دائیں بازو کی ہندو سیاست کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ اس دوران انہوں نے گائے کے ذبیحہ کے خلاف اور بین المذاہب شادیوں بالخصوص ہندو خواتین اور مسلمان مردوں کے درمیان شادیوں کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کیے۔

مخصوص قسم کا زعفرانی رنگ کا لباس پہننے والے یوگی ادیتیہ کا اصل نام اجے موہن بشٹ ہے۔ لیکن یوگی بننے یعنی دنیاوی آسائشوں سے کنارہ کشی اختیارکرنے کے بعد انہوں نے اپنا نام بدل کر یوگی ادیتیہ ناتھ رکھ لیا اور ستمبر2014 ء سے گورکھ ناتھ مندر کے ہیڈ پجاری ہیں۔

اصل دھارے کی سیاست میں شامل ہونے سے قبل انہوں نے ہندو یووا واہنی نامی ایک تنظیم شروع کی۔ گو کہ انہوں نے اسے ہندو مذہبی تنظیم قرار دیا تاہم یہ گائے کے تحفظ اور ”گھر واپسی‘‘ کے لیے کام کرتی ہے۔ گھر واپسی سے مراد اسلام، مسیحیت یا دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو مذہب تبدیل کراکے ہندو بنانا ہے۔

اس تنظیم کا ایک اور مقصد مبینہ ”لو جہاد‘ کی روک تھام ہے۔ ہندو یووا واہنی یہ غلط فہمی پھیلانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئی ہے کہ مسلمان مرد ہندو عورتوں کو لالچ یا دھوکہ دے کر ان کا مذہب تبدیل کراتے ہیں اور اس کا اصل مقصد ہندو اکثریتی ملک میں مسلمانوں کا غلبہ قائم کرنا ہے۔

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سیاسیات کی سابق پروفیسر سدھاپائی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ادیتیہ ناتھ کا امیج ایک مذہبی لیڈر کا ہے۔ انہوں نے اترپردیش کے مشرقی حصے میں اپنی جڑیں قائم کرلیں اور ایک سیاسی رہنما بن گئے۔‘‘ پائی کا تاہم کہنا ہے کہ یوپی سے باہر بھی ان کے اثرات کے بارے میں شبہ پایا جاتا ہے۔

پائی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں،” چونکہ پچھلے پانچ سال کے اقتدار کے دوران ان کا ریکارڈ خراب رہا ہے اس لیے آر ایس ایس(بی جے پی کی مربی تنظیم) شاید انہیں وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر پیش نہ کرے۔ ایک لیڈر کے طورپر بالخصوص جنوبی بھارت میں ان کا کوئی خاص اثر نہیں ہے۔‘‘

اترپردیش میں بی جے پی کی اصل حریف سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کی قیادت والی سماج وادی پارٹی ہے، جو حالیہ اسمبلی انتخابات میں متعدد مقامی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے میں کامیاب رہی ہے۔