تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سحرِ قدیم

azadi badi cheez hai

azadi badi cheez hai

تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سحرِ قدیم
گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم

عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلّا ہے ، نہ زاہد، نہ حکیم

عیشِ منزل ہے غریبانِ محبت پہ حرام
سب مسافر ہیں بظاہر، نظر آتے ہیں مقیم

ہے گراں سیر غم راحلہ و زاد سے تو
کو و دریا سے گزر سکتے ہیں مانندِ نسیم

مردِ درویش کا سرمایہ ہے آزادی و مرگ
ہے کسی اور کی خاطر یہ نصابِ زر و سیم

علامہ محمد اقبال