جاسوسی سربراہ کی ریٹائرمنٹ

Najeem Shah

Najeem Shah

آئی ایس آئی کے عظیم جاسوسی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی ریٹائرمنٹ کے بعد لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نئے ڈائریکٹر جنرل بن گئے ہیں۔اس طرح طاقتور احمد شجاع پاشا کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں قیاس آرائیوں اور افواہوں کا طوفان بھی تھم گیا ہے کیونکہ اُنہیں دو بار پہلے بھی توسیع مل چکی تھی اور اب کی بار اپوزیشن کی سیاسی جماعت نواز لیگ نے توسیع دینے کی شدید مخالفت کی یا پھر حکومت توسیع دینا چاہتی تھی اور انہوں نے خود ہی معذرت کرلی کیونکہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ کے بقول احمد شجاع پاشا مدت ملازمت میں توسیع کی خواہش نہیں رکھتے بلکہ حکومت خود انہیں توسیع دینے کی خواہشمند تھی۔ 18مارچ کا دن لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی زندگی میں انتہائی اہمیت کا حامل بن گیا ہے۔ 18مارچ 1952ء اُن کا جنم دن ہے، 18مارچ 2008ء کو وہ ڈی جی آئی ایس آئی بنے، 18مارچ 2010ء کو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اُن کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کردی، 18مارچ 2011ء کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اُنہیں مزید ایک سال کی توسیع دی اور پھر 18مارچ 2012ء کو ہی وہ اپنی سالگرہ کے دن ریٹائر بھی ہو گئے۔

وہ ایک ایسے وقت میں ریٹائر ہوئے جب آئی ایس آئی کو دنیا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی سی آئی اے سے مقابلہ درپیش ہے کیونکہ دونوں کے تعلقات افغان جنگ، طالبان کے ساتھ مذاکرات، ڈرون حملوں اور قبائلی علاقوں میں مسلح جنگجوئوں کیخلاف کارروائی کی وجہ سے پہلے ہی سردمہری کا شکار تھے لیکن گزشتہ سال کے ایبٹ آباد واقعے کے بعد سے جو رخنہ آیا ہے اس کی وجہ سے آئی ایس آئی اور سی آئی اے میں مزید بداعتمادی کی فضاء پیدا ہو گئی ہے۔ احمد شجاع پاشا آئی ایس آئی کے 19ویں ڈائریکٹر جنرل تھے لیکن آئی ایس آئی کی آفیشل ویب سائٹ پر دی گئی فہرست کے مطابق وہ 17ویں ڈی جی ہیں جبکہ اس فہرست میں لیفٹیننٹ کرنل شاہد حمید اور میجر جنرل رابرٹ کاتھوم کا نام شامل نہیں ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا بلاشبہ ایک مایہ ناز اور نڈر شخصیت ہیں۔ وہ نہ صرف ایک محب وطن فوجی جرنیل ہیں بلکہ تاریخ شناس بھی ہیں ۔وہ تاریخی ناول، سفرنامے اور تاریخ لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اُن کی تاریخی اور دستاویزی کتابیں نہایت مستند سمجھی جاتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین، اس صدی کی کہانی، افغانستان ایک قوم کا المیہ، مسئلہ کشمیر، پاکستان کی خارجہ پالیسی، ماسکو سے بخارا تک، پٹھان ایک قوم ایک جائزہ، پانی پت کی آخری جنگ، بارہواں کھلاڑی اور دیگر موضوعات پر اُن کی درجن بھر کتابیں اور ناول پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تاریخ اور جغرافیے دونوں سے نہ صرف باخبر رہتے ہیں بلکہ اس پر گہرئی نظر بھی رکھتے ہیں۔

احمد شجاع پاشا نے آئی ایس آئی سربراہ کی حیثیت سے نہ صرف دشمن کی طرف سے غلط تاثر دے کر اس حساس ادارے کو بدنام کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا بلکہ امریکیوں کی پاکستان میں دراندازیوں کے خلاف بھی انتہائی سخت مؤقف اختیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ان دونوں اداروں کے درمیان شدید اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ امریکا کا الزام ہے کہ ایک طرف آئی ایس آئی دہشت گردی کیخلاف ہماری اتحادی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے جبکہ دوسری طرف وہ طالبان سے رابطے اور تعاون بھی کر رہی ہے تاہم امریکا آج تک آئی ایس آئی اور طالبان کے رابطے ثابت نہیں کر سکا۔ احمد شجاع پاشا نے چونکہ ہر محاذ پر آئی ایس آئی کا بھرپور دفاع کیا یہی وجہ ہے کہ اُن کی ریٹائرمنٹ کو امریکا کی انٹیلی جنس کمیونٹی کیلئے ریلیف قرار دیا جا رہا ہے۔ بحیثیت ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی وہ اس قدر بااثر اور طاقتور شخصیت کے مالک بن گئے تھے کہ گزشتہ سال امریکا کے مؤقر جریدے ٹائم میگزین نے دنیا کے سو بااثر ترین افراد کی فہرست میں انہیں 17ویں نمبر پر شامل کیا۔

امریکا اور پاکستان میں حالیہ تنائو خاص طور پر امریکا کی جانب سے اس حساس ادارہ کو تنقید کا نشانہ بنانے اور اس پر عدم اعتماد کے بعد آئی ایس آئی نے امریکی ادارے سی آئی اے سے عملی طور پر راستہ الگ کر لیا ہے۔آئی ایس آئی کے خلاف بیرون ممالک سازشیں تو ہو رہی ہیں لیکن کچھ عرصہ سے ملک کے اندر بھی اس پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے۔ کسی بھی ادارہ کی کارکردگی پر جائز تنقید کا حق ہر کسی کو حاصل ہے لیکن کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو نااُمیدی پھیلانے کے مشن پر گامزن ہیں۔ ان عناصر کا کام اپنے مخصوص ایجنڈے کو پورا کرنا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے عناصر نے آئی ایس آئی اور احمد شجاع پاشا دونوں کو خوب نشانہ بنایا۔ دوسرے ممالک میں خفیہ ایجنسیوں کے کردار پر اتنی شدت سے تنقید نہیں ہوتی جتنی ہمارے ہاں ہو رہی ہے۔ حالانکہ ہم جانتے بھی ہیں کہ آئی ایس آئی نے محدود وسائل میں رہتے ہوئے وہ کامیابیاں حاصل کیں جو دنیا کی دیگر خفیہ ایجنسیوں کے حصے میں نہ آ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایس آئی کا شمار دنیا کے ٹاپ رینکنگ سراغ رساں اداروں میں ہوتا ہے۔

سراغ رساں ادارے کسی بھی ملک کی آنکھیں اور کان ہوتے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں یہ ادارے موجود ہی نہیں بلکہ اپنے ممالک کے مفادات کے تحفظ میں سرگرم عمل بھی ہوتے ہیں۔ ملک دشمن عناصر کی سرگرمیوں اور اُن کی سازشوں کے انسداد کیلئے ایسے اداروں کا وجود انتہائی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ عالمی شہرت کے حامل آئی ایس آئی کاکام بھی دشمن کی چالوں، خفیہ سازشوں، ملک کو درپیش خطرات کو قبل از وقت بے نقاب کرکے ملک کا بالواسطہ طور پر تحفظ کرنا ہے۔ آئی ایس آئی اور افواجِ پاکستان ہی دو ایسے ادارے ہیں کہ جن پر عوام کو مکمل بھروسہ ہے اور وہ انہیں اپنی حفاظت کا ذمہ دار اور قربانیوں کا امین تصور کرتے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را اور آئی ایس آئی ایک دوسرے کی دیرینہ مخالف رہی ہیں لیکن فتح ہمیشہ آئی ایس آئی کا ہی مقدر ٹھہری ۔ آئی ایس آئی نے بھارتی فوجی حملوں اور خفیہ فوجی مشقوں کی فائلیں اندرا گاندھی کی ٹیبل پر پہنچنے سے قبل ہی اُڑا لی تھیں، یوں بھارتی حملے سے پہلے ہی پاک فوج ہوشیار ہو گئی۔ اس کے علاوہ اس کا ممتاز معرکہ معروف روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے جی بی کو کائونٹر کرنا ہے جبکہ اب اس کی مخالفت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی سی آئی اے سے چل رہی ہے۔ آئی ایس آئی وہ ایجنسی ہے جس کے صفر ڈبل ایجنٹس اور غدار ہیں اور محدود بجٹ کے باوجود عظیم کارنامے انجام دے چکی ہے۔ جس طرح پاک فوج نے دنیا کی بہادر، محنتی اور جفاکش فوج ہونے کا اعزاز حاصل کیا اسی طرح آئی ایس آئی بھی دنیا کی ایک کامیاب خفیہ ایجنسی بن چکی ہے لیکن اسکے باوجود ہمارے کچھ نام نہاد دانشور آئی ایس آئی اور فوج پر برستے ہیں۔

آئی ایس آئی قومی ادارہ ہے اسے متنازعہ نہیں مضبوط بنانا چاہئے۔ اس پر جائز تنقید ضرور کی جائے لیکن ایسی تنقید سے اجتناب برتا جائے جس سے دشمن فائدہ اُٹھا سکیں۔ احمد شجاع پاشا نے بلاشبہ گراں قدر خدمات انجام دیں اور ہمیشہ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے جبکہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کا بھی یہی مؤقف ہے کہ آئی ایس آئی کو غلط تاثر کے ذریعے بدنام کیا جا رہا ہے۔ ظہیر الاسلام اس سے پہلے آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں اور پیشہ ورانہ صلاحیتیں رکھنے والے سینئر افسران میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اُن کی ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے عہدے پر تقرری ایک ایسے وقت میں ہوئی جب آئی ایس آئی کو اندرونی و بیرونی تنقید و تضحیک کے ساتھ ساتھ مشکل وقت کا بھی سامنا ہے لیکن احمد شجاع پاشا کی طرح وہ بھی انتہائی پیشہ ورانہ جنرل ہیں اور آئی ایس آئی کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں۔ جس طرح احمد شجاع پاشا اپنے اصولی مؤقف پر ڈٹے رہ کر دشمن کی سازشیں ناکام بناتے رہے پاکستانی عوام نئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام سے بھی یہی اُمید رکھتی ہے۔ اگر حکمران، فوج ، خفیہ ایجنسیاں اور عوام کسی ایک نظریہ پر متحد ہو جائیں تو انشاء اللہ بہت جلد پاکستان کی دشمن طاقتیں پسپا ہو جائیں گی۔

تحریر: نجیم شاہ