پاکستان میں ڈرون حملے اور عالمی قوانین

drone attack

drone attack

نائن الیون سے قبل شائد ہی کوئی پاکستانی ڈرونز کے بارے میں جانتا ہو مگر آج ہر پاکستانی ڈرونز کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے۔کیونکہ آئے روز پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ہوتے رہتے ہیںڈرون یا بغیر پائلٹ کے جہاز کے لیے امریکی فوج میں انگریزی زبان کا لفظ ‘میِل’ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کا اگر اردو میں ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب ، نر ،ہو گا۔اصل میں میل مخفف ہے ‘میڈیم ایلٹیٹوڈ لانگ اینڈورینس’ کا۔ ابتداء میں بغیر پائلٹ کے جہاز یا ‘پریڈیٹر’ کو دشمن کے علاقے میں فضائی جاسوسی یا نگرانی کرنے کے مقصد سے بنایا گیا تھا لیکن بعد میں اس پر اے جی ایم ہیل فائر میزائل بھی نصب کر دیئے گئے۔سن انیس سو پچانوے سے امریکی فوج کے زیر استعمال یہ ڈرون افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے پہلے بوسنیا، سربیا، عراق اور یمن میں بھی استعمال کیئے جا چکے ہیں۔

ڈرون صرف ایک جہاز ہی نہیں بلکہ یہ ایک پورا نظام ہے۔ اس پورے نظام میں چار جہاز، ایک زمینی کنٹرول سٹشین اور اس کو سیٹلائٹ سے منسلک کرنے والا حصہ ہوتا ہے۔ اس نظام کو چلانے کے لیے پچپن افراد کا عملہ درکار ہوتا ہے۔پینٹاگن اور سی آئی اے انیس سو اسی کی دہائی کے اوائل سے جاسوسی کے لیے ڈرون طیاروں کے تجربات کر رہے تھے۔انیس سو نوے میں سی آئی اے کو ابراہم کیرم کے بنائے ہوئے ڈرون میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ابراہم کیرم اسرائیلی فضائیہ کا چیف ڈیزائنر تھا جو بعد میں امریکہ منتقل ہو گیا۔ڈرون انیس سو نوے کی دہائی میں مختلف تجرباتی مراحل سے گزرتا رہا اور انیس سو پچانے میں پہلی مرتبہ اسے بالکان میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔بنیادی کام: جاسوسی اور اہداف کو نشانہ بنانا بنانے والے: جنرل اٹامکس ایئروناٹیکل سسٹم انکارپویٹڈ انجن: روٹیکس 914 ایف چار سلنڈرقوت: ایک سو پندرہ ہارس پاؤر ۔پروں کا پھیلاؤ اڑتالیس اعشاریہ سات فٹ۔ لمبائی ستائس فٹ۔ اونچائی چھ اعشاریہ نو فٹ ۔وزن ایک ہزار ایک سو تین پاؤنڈ۔ اڑان کا وزن دو ہزار دو سو پچاس پاؤنڈ ایندھن کی گنجائش چھ سو پینسٹھ پاؤنڈ۔ رفتارچوراسی میل فی گھنٹہ سے ایک سو پینتیس میل فی گھنٹہ۔چار سو پینتالیس میل دور تک پرواز کر سکتا ہے۔ پرواز کی بلندی پچیس ہزار فٹ ۔ہتھیاردو لیزر گائڈڈ میزائل۔چار ستمبر دو ہزار ایک کو بش انتظامیہ کی طرف سے القاعدہ اور طالبان کے خلاف کارروائی کی منظوری دینے کے بعد سی آئی اے کے چیف جان ٹینٹ نے ڈرون کی پروازوں کی اجازت دی۔ اسوقت تک ڈرون سے میزائل داغنے کی صلاحیت حاصل کر لی گئی تھی لیکن ازبکستان کی حکومت کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے ڈرون پر میزائل نصب نہیں کیئے گئے۔

گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ نے فوری طور پر ڈرون کے لیے ہیل فائر میزائل روانہ کر دیے اور سولہ ستمبر تک یہ ازبکستان میں امریکی اڈوں پر پہنچ گئے تھے۔اٹھارہ ستمبر دو ہزار ایک کو کابل اور قندہار کے اوپر پہلی مرتبہ ڈرون جہازوں نے پروازیں کیں لیکن اس وقت ان پر میزائل نصب نہیں تھے۔والے حملوں سے پہلے ڈرون کو میزائل داغنے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔سی آئی اے اور پینٹاگن نے مشترکہ طور پر افغانستان میں اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے کا پلان بنایا۔ اس پلان کو ‘افغان آئیز’ کا نام دیا گیا اور ڈرون طیاروں کا ساٹھ دن کی تجرباتی پروازیں شروع کی گئیں۔ ڈرون کی افغانستان کے اوپر پندرہ میں سے دس پروازوں کو کامیاب قرار دیا گیا۔سن دو ہزار ایک میں افغانستان میں پریڈیٹر جہاز کے جاسوسی مشن کے نتائج دیکھنے کے بعد سی آئی کے انسداد دہشت گردی کے مرکز کے سربراہ کوفر بلیک نے اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون جہازوں پر میزائل نصب کرنے کی ضرورت پر زور دینا شروع کیا۔بائیس مئی اور سات جون سن دو ہزار ایک میں ڈرون سے میزائل داغنے کے مزید تجربات کیئے گئے اور جون کے پہلے ہفتے میں امریکہ کے نیواڈا صحرا میں افغانستان کے صوبے قندہار کے علاقے ترناک میں اسامہ بن لادن کے گھر کی طرح کا ایک گھر بنایا گیا اور اس پر ڈرون سے میزائل داغا گیا۔ یہ میزائل اس گھر کے کمرے میں پھٹا اور یہ فرض کیا گیا کہ اس کمرے میں موجود بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے۔

وزیرستان اور پاکستان کے دیگر قبائلی علاقوں میں امریکی حملوں کا اغاز ویسے تو جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا لیکن ان میں حالیہ اضافہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں دیکھنے میں آیا ۔ پاکستان کا ان حملوں کے حوالے سے موقف انتہائی غیر سنجیدہ اور غیر رسمی سا رہا ہے۔ اگرچہ حکومت پرزور طور پر ان واقعات کی مخالفت کرتی رہی ہے لیکن یہسب کچھ صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود رہا۔. پاکستان میں2004سے اب تک317ڈرونز حملوں میں تقریبا3070افراد جاں بحق ہوئے.317ڈرونز حملوں میں اوباما کے دور صدارت میں265حملے کیے گئے. برطانوی تھنک ٹینک کے مطابق پاکستان میں ڈرونز حملوں میں178بچے بھی جاں بحق ہوئے جب کہ 1263افراد زخمی ہوئے .۔قبائلی امور کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اگر ان علاقوں میں جاری امریکی حملے بند کرانے کیلیے فوری اقدامات نہیں کئے گئے تو اس سے شدت پسندوں کی حمایت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے اور وہ ایک بار پھر لوگوں کا اعتماد حاصل کرسکتے ہیں۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں پروفیسر فلپ آلسٹن نے ہدف بنا کر یا نشانہ بنا کر بالخصوص ڈرون حملے اور ان سے ہوئی ہلاکتوں میں بیشتر کو ماورائے عدالت اور غیر قانونی ہلاکتیں قرار دیا ہے۔فلپ آلسٹن اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنی وہ رپورٹ پیش کر رہے تھے جو انہوں نے ایک برس کی تحقیق کے بعد تیار کی۔اس رپورٹ میں امریکی ڈرون حملوں میں شدت اور پاکستان اور افغانستان میں ان حملوں سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے تناظر میں فلپ آلسٹن کا کہنا تھا کہ ایسے نئے قوانین کی ضرورت ہے جو ان ڈرون حملوں کی منطق اور حد طے کر سکیں۔اس رپورٹ کے تناظر میں فلپ آلسٹن کی بی بی سی اردو سروس کے ساتھ گفتگو میں ان سے پوچھا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی ہے اور اگر امریکہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کر رہا ہے تو یہ حملے غیر قانونی کس طرح ہو سکتے ہیں۔ فلپ آلسٹن کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔’جہاں تک تھیوری کا تعلق ہے تو اگر میرا ملک شدید جارحیت کا شکار ہے تو میں اپنی مدد کے لیے کسی دوسرے ملک کو بلا سکتا ہوں۔

اس کے باوجود اس دوست ملک کو یہ اختیار حاصل نہیں ہو جاتا کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرے۔ لہٰذا اگر ایسی صورت حال بھی موجود ہے جس میں کسی دوسرے ملک کی مداخلت کوجائز قرار دیا جا سکے تب بھی لڑائی سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی ہر اعتبار سے پاسداری کی جانی چاہیے۔’پروفیسر فلپ آلسٹن سے جب پوچھا گیا کہ ہاٹ پرسوٹ کے قانون کے تحت بھی تو امریکہ ان لوگوں پر حملہ کر سکتا ہے جو اس پر حملہ کر رہے ہیں اور اگر حملہ آور پاکستان میں پناہ لے لیتا ہے تو امریکہ اس پر حملہ کیوں نہ کرے۔ جواب میں پروفیسر فلپ آلسٹن کا کہنا تھا کہ ہاٹ پرسوٹ یا سرحدوں کی پرواہ کیے بغیر دشمن کا تعاقب کرنے کا معاملہ مختلف ہے۔ یہ نظریہ دشمن سے زمین پر یا گہرے سمندر میں کسی جھڑپ یا لڑائی کے بعد عمل میں آتا ہے حملے سے بہت قریبی تعلق ہونا چاہیے۔لہٰذا زیادہ تر قانونی ماہرین یہی کہیں گے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے نو برس بعد یہ تعلق اتنا مضبوط نہیں کہ دنیا میں کہیں بھی اس قانون کے تحت کارروائی کا جواز فراہم کیا جا سکے۔

میں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سامنے یہی بات رکھی تھی کہ اگر ہم یہ دلیل مان لیتے ہیں تو اقوام متحدہ کے چارٹر میں طاقت کے استعمال پر جو پابندی ہے اس کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا ‘لیکن پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان اس بات کی تردید کرتا ہے کہ اس معاملے میں امریکہ کے ساتھ اس کی کوئی خاموش مفاہمت ہے۔ تو اس صورت میں پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کی قانونی حیثیت کا تعین کیسے ہو۔ اس پر پروفیسر فلپ آلسٹن کا کہنا ہے کہ امریکہ نے واضح طور پر یہ نہیں کہا ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت کی اجازت سے ایسا کر رہا ہے۔ امریکی حکومت نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سامنے باضابطہ طور پر اس بات سے انکار کیا ہے لیکن امریکہ پھر بھی کہتا ہے کہ اسے اجازت حاصل ہے۔

میں یہ بات ان اعلیٰ سرکاری عہدیداران کے بیانات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جو میں نے ذرائع ابلاغ میں دیکھے ہیں۔ لیکن یہ امریکی حکومت کے سرکاری موقف کے بالکل خلاف ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ کوئی اجازت نہیں ہے اور اسے پاکستانی سرزمین پر کی جانے والی کارروائی پر افسوس ہے۔ اگر اجازت حاصل ہونے کی بات کی جاتی تو پھر امریکہ یہ کہہ سکتا ہے کہ جنگ ہو رہی ہے اور پاکستان نے اسے اپنی مدد کے لیے بلایا ہے لہذا وہ جنگجوؤں یا متعلقہ عام شہریوں کے خلاف مناسب کارروائی کر سکتا ہے۔

فلپ آلسٹن بعض موقعوں پر ان حملوں کو قانونی اور جائز اور بعض موقعوں پر غیر قانونی قرار دیتے ہیں تو کن حالات میں انہیں غیر قانونی اور کن حالات میں ان ہی حملوں کو قانونی طور پر جائز قرار دیا جائے۔ اس پر ان کا کہنا ہے کہ ‘مسئلہ یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے کسی ڈرون سے داغا جانے والا میزائل کسی ہیلی کاپٹر یا طیارے یا کسی ایک فوجی کی جانب سے داغے جانے والے میزائل سے مختلف نہیں ہے۔ کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ تو ڈرون سے میزائل اسی صورت میں داغے جا سکتے ہیں جب ہتھیاروں سے لڑائی ہو رہی ہو اور یہ میزائل صرف مسلح گروپوں کے جنگجوؤں کے خلاف یا ان عام شہریوں کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں جو لڑائی میں براہ راست حصہ لے رہے ہوں۔ یہ لوگوں کا ایک محدود گروپ ہی ہو سکتا ہے۔

صرف یہی وہ حالات ہیں جن میں کسی کو مارنے کے لیے ڈرون استعمال کیے جا سکتے ہیں۔پروفیسر فلپ آلسٹن سمیت بے شمار لوگ کہ چکے ہیںکہ ڈرون حملے نینالاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ان حملوں سے بے شمار بیگناہ بچے ،عورتیں،بوڑھے،جوان جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس پر اقوام متحدہ کی خاموشی اس کے غیر جانبدار ہونے کے دعوے کو داغدار کر رہی ہے۔کیونکہ اگر اس انداز میں بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہو اور اقوام متحدہ خاموش تماشا ئی بنی رہے ۔تو پھر اس کے وجود کا کیا مقصد رہ جا تا ہے۔ تحریر : ممتاز احمد بھٹی