جیسی عوام ویسے حکمران(2)

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

جس ملک کی عوام کے نزدیک سرکاری آفیسر بننے کا مقصد ملک و قوم کی ترقی کی بجائے اپنی عیاشیوں کے لیے خوب دولت کمانا ہو اس ملک میں صرف آفیسر شاہی ہی ترقی کرتی ہے ۔اس ملک کے حکمران عوام کوسستی روٹی ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت بھیک اور اس سے ملتی جلتی کئی اور سہولتیں تو دے سکتے ہیں لیکن باعزت روزگار ،مفت انصاف اور صحت و تعلیم کی سہولیات فراہم نہیں کر سکتے ۔

میرے نزدیک زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں بسے والے لوگ ان بنیادی سہولتوں کی بجائے ووٹ بیچ کر چند روپوں کے عوض اپنے ضمیر کے ساتھ ساتھ اپنی آنے والی نسلوں کا بھی سودا سستے داموں کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ۔عوام اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ پہلے اپنی مرضی سے خوشی خوشی اپنے آپ کو سستے داموںفروخت کرتے ہیں ۔

بعد میں خریدار کوبراکہنے لگتے ہیں ۔جو لوگ ووٹ نہیں بیچتے وہ ان لوگوں کو اپنے ووٹ کا حق دار سمجھتے ہیں جن کا تعلق وڈیرا ,سرمایہ دار،جاگیرداریاٹائوٹ قسم کے خاندان سے ہواکثرلوگوں کا خیال ہے کہ سیاست شریف آدمی کا کام نہیں ،سیاست تو بس بدماش قسم کے لوگوں کاکام ہے وہ اس لیے کہ ایسے لوگوں کے پاس دولت و جاگیر زیادہ ہوتی ہے ۔دس ،بیس گاڑیاں ہروقت ان کے گھر کے باہر کھڑی رہتی ہیں اور شریف آدمی کے پاس ایک بھی گاڑی نہیں ہوتی ،شریف آدمی کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ وہ کیا سیاست کرے گا اس کو توکبھی تھانے نہیں دیکھا،اس کا تو خاندان بہت چھوٹا ہے ، وہ تو کسی سے لڑائی میں بھی نہیں جیت سکتا تو الیکشن کیا جیتے گا،اسے دے کر تو ووت ہی ضائع کرنے والی بات ہوگی۔

اس کے مقابلے میں کھڑا امیدوار زیادہ مضبوط ہے اس کے پاس سرمایہ بھی ہے اوربرادری بھی بڑی ہے ۔تھانے ،کچری کے معاملات بھی اچھی طرح سمجھتاہے اور بجلی و گیس کے کام بھی کروا سکتا ہے ۔مختصر یہ کہ عوام کو تمام تر خوبیوں کامالک جاگیردار قسم کا امیدوار ہی نظر آتا ہے۔کچھ لو گ اس کی جاگیر سے متاثر ہوکراورکچھ پیشے لے کر اسے ووٹ دے دیتے ہیں ۔جس کے بعد ہوتا کیا ہے ۔وہ الیکشن جیت جاتا ہے ۔اب غور کریں جس نے الیکشن جیتنے کے لیے دو ،چارکروڑ یا اس بھی زیادہ خرچ کیا ہوگا وہ پانچ سال اپنے پیسے پورے کرے گا یا ملک وقوم کی خدمت ؟پھر جب عوام کا منتخب نمائندہ اپنے پیسے پورے کرنے کے لیے لوٹ مار کرتا ہے تو عوام اسے برا کہتے ہیں ۔

بے شک لوٹ مار کرنے والا ملک وقوم کا دشمن ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسے لوٹ مار کی اجازت کس نے دی ؟کس نے اسے اتنا طاقتور بنایا کے وہ سرعام کرپشن کرے ؟ سب سے اہم سوال کہ وہ طاقت ہے کون سی؟میرے نزدیک وہ طاقت ہے عوام کے ووٹ کی اور اس حساب سے اسے لوٹ مار اور کرپشن کی اجازت عوام ہی نے دی ہوتی ہے۔سیاست دان ایسے ہی تو نہیں کہتے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔قارئین محترم ہم کتنے نادان ہیں اپنی طاقت کا استعمال اپنے ہی خلاف کرتے ہیں ۔

ہمیں اس بات کا ہوش ہی نہیں کہ جس شخص کو ہم ووٹ دے رہے ہیں وہ اس کا اہل ہی نہیں ،اسے تو لوٹ مار اور کرپشن کے سوا کچھ آتا ہی نہیں ، وہ کس طرح غریب عوام کے مسائل حل کرے گا جب اس نے کبھی غربت دیکھی ہی نہیں ،کبھی غریبوں کے پاس بیٹھا ہی نہیں۔جولوگ منہ میں سونے چمچ لے کرپیدا ہوتے ہیں وہ کیا جانے کہ دو سیر آٹے کی قمیت کیا ہے ،جس کی ماں کو جہیز میں دو چار کلو سونا ملا ہواسے کیا پتہ کہ غریب کی بیٹی صرف اس لیے گھر بیٹھی بوڑھوی ہوجاتی ہے کونکہ اس کے پاس جہیز دینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے :جاری ہے