عوام میں وزیراعظم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت

Imran Khan

Imran Khan

تحریر: لقمان اسد

تحریک عدم اعتماد کا اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے لیکن عوام ایک بار پھر عمران خان کی جانب پلٹے ہیں اور اس اکثریت سے پلٹے ہیں کہ ان کے جلسوں میں پنڈالوں میں عوام کی اکثریت دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمران کے جلسوں کے بارے میں یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ ”ٹل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی ”جب ہم تحریک عدم اعتماد کی ٹائمنگ دیکھتے ہیں تو ہمیں واضح نظر آتا ہے کہ یہ تحریک ایک ایسے وقت لائی گئی ہے جب عمران خان روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ ایک کامیاب ملاقات اور خارجہ پالیسی کی مضبوط بنیادوں کے ساتھ وطن واپس لوٹے ہیں وہ ملاقات جو ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہنا تھی وہ ساڑھے تین گھنٹے پر محیط ہو گئی یہ ایک کامیاب خارجہ پالیسی کی بنیاد استوار کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔

امریکہ نے ہمیں ہمیشہ دوست کے روپ میں دشمن ہونے کا چہرہ متعارف کرایا ہم نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑی جس میں 80ہزار افراد کا جانی اور ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا مالی خسارہ ہماری معیشت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ گیا مگر اس کے باوجود ہماری قربانیوں کا اعتراف امریکیت سے ممکن نہ ہوسکا ڈرون حملوں کے ذریعے ہماری خود مختاری پر حملہ کیا گیا عمران خان ان ڈرون حملوں کے خلاف ایک لانگ مارچ لیکر نکلے امریکہ ڈورون حملوں کا معاہدہ جب طے پایا تو اس پر مولانا فضل الرحمان سے لیکر زرداری اور نواز شریف تک کے دستخط موجود ہیں۔

عمران خان شروع سے وطن عزیز کی خود مختاری اور خودداری کی جنگ لڑتے رہے حالیہ پاک روس تعلقات کے سلسلے میں ان کا دورہ روس اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے کہ ہم امریکی بلاک سے نکلنے والے ہیں ہم نے امریکی بلاک میں شمولیت کی بڑی قیمت چکائی ہے اپوزیشن جس کے لیڈران زرداری ،شریف برادران ،اور مولانا فضل الرحمان جن کے اربوں کے اثاثے مغربی ممالک میں ہیں کسی طرح بھی چائنا اور روس کا بلاک قابل قبول نہیں روس کا دورہ بھی مذکورہ بالا لیڈران کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں چیئرمین تحریک انصاف کے میلسی کے جلسہ میں یورپی یونین کو للکارنا بھی اپوزیشن کیلئے ناگوار کیفیت کا احساس تھا اب کچھ روز کے بعد او آئی سی کا اہم ترین اجلاس پاکستان میں ہونے والا ہے جس میں پاکستان اور مسلم امہ کو درپیش مسائل کے حوالے سے اہم پیش رفت سامنے آنے والی ہے اور سعودی عرب کے شاہ محمد بن سلیمان بھی 23مارچ کو پاکستان کا اہم دورہ کرنے والے ہیں جس کے دوران وہ امریکی بلاک سے نئے بلاک میں شمولیت کا اعلان بھی کریں۔

امریکہ کی یہ رسوائی بھی اپوزیشن کو کسی طور گوارہ نہیں سو امریکہ کی حلیف قوتیں 77کی طرح سرگرم ہوچکی ہیں اور دکھ اس بات کا ہے کہ آج بھی انہی قوتوں کی باقیات متحرک ہوکر عمران خان کے خلاف میدان عمل میں اتری ہیں تحریک عدم اعتماد کا پس منظر بھی ہمیں وہی نظر آتا ہے جو 77کی تحریک کا پس منظر تھا امریکہ کو عمران خان اس لیئے بھی قابل قبول نہیں ہوگا کہ اس نے یوکرائن کی جنگ میں عین جنگ کے موقع پر اپنے روس کے دورہ کو موخر نہیں کیا اور اقوام متحدہ کے فورم پر انہوں نے امریکہ کی خواہشات کی تکمیل نہیں کی اس کے علاوہ خطے کے بڑوں کا ایک اہم اجلاس سی پیک کے حوالے سے اسلام آباد میں ہونے والا ہے جس میں پاکستان کی معاشی ترقی کی نئی راہیں متعین ہونے والی ہیں چھانگا مانگا کی سیاست اور ضمیروں کی سوداگری کے حوالے سے جتنا تجربہ شریف برادران رکھتے ہیں۔

اتنا تجربہ شاید کسی اور سیاست دان کے پاس نہیں ،عمران خان کے جلسوں ،میلسی ،دیر اور حافظ آباد میں عوام کا جم غفیر دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ 77کی تحریک کا مقصد اپنی موت آپ مر چکا ہے اور یہی اپوزیشن کیلئے لمحہ فکریہ ہے مگر عمران خان کے چہرے پر جھلکتا اعتماد اور اطمینان کی جھلک دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ وہ یہ جنگ لڑنے کیلئے فرنٹ فٹ پر آچکے ہیں کریز سے نکل کر وہ اپوزیشن کو عدم اعتماد کی تحریک میں بھی شکست سے دوچار کرنے کے موڈ میں ہیں تاہم ایک بات کہنا ضروری ہے کہ ساڑھے تین برس سے زائد عرصہ میں پنجاب کی بیڈ گورننس نے بھی عوام کے اندر ایک بد دلی کی کیفیت کو جنم دیا ہے۔

علیم خان نے پارٹی کیلئے ابتدا میں قربانیاں دیں اور تنظیم سازی میں ان کا ایک اہم رول ہی نہیں ان کے پاس ایک ورکر اور ٹیم تھی جس سے وہ پنجاب کی حد تک میاں برادران کا بوریا بستر گول کر سکتے تھے مگر انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ نہ دیکر ان کی قربانیوں سے انحراف کیا گیا ،اور جہانگیر ترین کے خلاف بھی محض پارٹی کے اندر ایک گروپ نے محاذ بنا لیا وگرنہ جہانگیر ترین کی پارٹی خدمات کو بھلانا ممکن نہیں ایک مشورہ جہانگیر ترین اور علیم خان کیلئے اس مشکل وقت میں اگر آپ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوگئے تو آپ کا قد نہ صرف عمران خان بلکہ پارٹی ورکروں کی نظروں میں بھی بڑھ جائے گا علاوہ ازیں اسحقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عوام کے اندر عمران خان کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اقتدار سے نکلنے کے بعد اپوزیشن اتحاد کیلئے عمران خان کتنا خطر ناک ہو سکتا ہے۔

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر: لقمان اسد