دین فروش، وطن فروش۔۔۔۔۔۔

kifait hussain

kifait hussain

بچپن میں اپنے نانا(مرحوم) سے سُنی ایک کہانی اب تک مجھے نہیں بھول پائی شاید اس لیئے بھی کہ و ہ کہانی آج حقیقت کا روپ دھارے میرے سامنے ہے۔ ایک ایسے بادشاہ کی کہانی جو اپنی رعایا میں بہت ہی سنگدل اور ظالم مشہور ہوتا ہے ،لیکن حقیت میں وہ بہت ہی رحم دل اور نیک سیرت انسان تھا ۔بادشاہ کی خواہش تھی کہ اُس کی قوم ، نڈر ،غیور، بہادربنے ،  سر جُھکاکرنہیں سر اُٹھا کر جئیں ،اِس لیئے بادشاہ کے سخت روئیے نے رعایا کے اندر خوف پیدا کیا ہو تھا ۔ کئی طرح کی کوششیں کرنے کے باوجود بھی بادشاہ نے محسوس کیا کہ لوگوں میں وہ بیداری پیدا نہیں ہورہی جیسی وہ چاہتا ہے۔ بل آخر بڑے غو وفکر کرنے کے بعد بادشاہ نے پوری سلطنت میں اعلان کروایا کہ سلطنت کے مین دروازے سے کوئی بھی شخص اندر ،باہر آئیگایا جائیگا اُس کے سر پر دو ،دو جوتے مارے جائینگے، منادی ہونے کے اگلے ہی روز حُکم نامے پر عمل شروع ہو گیا،اب بادشاہ پُر اُمید تھا کہ اُس کے اس عمل پر لوگ چُپ نہیں بیٹھیںگئے اور کوئی نہ کوئی ردِعمل ضرور ظاہر کریںگئے ۔ کچھ ہی دن گُزرنے کے بعد رعایا میں سے چند لوگ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور بڑی ہی عاجزی سے عرض کیا ،باد شاہ سلامت یہ جو آپ نے جوتے مارنے والا حُکم نامہ جاری کیاہے اُس سلسلے میں آ پ سے کچھ عرض کرنے کے لیئے حاضر ہوئے ہیں۔بادشاہ دِل ہی دِل میںخوش ہواکہ چلو جیسے ہی سہی میری قوم میں بات کرنے کی ہمت تو آئی ۔ ایک شخص آگے بڑھا سر کو جُھکائے اور بڑی ہی دھیمی آواز میں بادشاہ سے بولا۔باد شاہ سلامت ، ہر کسی کو صبح کام پر جانے کی جلدی ہوتی ہے اور جوتے مارنے کے لیئے صرف ایک ہی سپاہی کو مقرر کیاگیا ہے،لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر ہمیں اپنے اپنے کام پر پہنچنے میں دیر ہوجاتی ہے،اِس لیئے آپ سے گُزارش ہے کہ جوتے مارنے کے لیئے  ایک کی جگہ دو سپاہیوں کو مقرر کیا جائے تاکہ ہم جلدی فارغ ہوکر اپنے کام پر ٹائم پر پہنچ سکیں۔ یہ سُنتے ہی بادشاہ افسردہ ہوکر اور کچھ بولے بغیر ہی دربار سے اُٹھ کر چلاگیا۔
بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ ایسی بزدل قوم پر حکمرانی کرنے سے بہترہے غلامی کی زندگی جینا۔ بس وہ غیرت مند بادشاہ بزدل رعایا کو اُن کے حال پر چھوڑکر کہیں دور گُمنامی کی زندگی گُزارنے لگا۔اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصدصرف یہ ہے کہ آج  جب میں پاکستان کے عوام کو دیکھتا ہوں تو اُس بزدل رعایا کی جھلک مجھے اپنی قوم میں نظر آتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے موجودہ حالات اس کہانی کی عکاسی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ہا ںمیں بالکل یہ احمقانہ بات نہیں کرونگا کہ ہمارے موجودہ حکمران ،کہانی کے  غیرت مند بادشاہ والے کردار کو نبھارہے ہیں لیکن پاکستان کے عوام کہانی والی رعایا کا کردارباخوبی  نِبھارہے ہیں ۔ہماری قوم اتنی بے حِس،نا عاقبت اندیش،خود غرض ،سُست اور کاہِل ہو گئی ہے کہ جس کی کوئی مشال نہیں۔ ہم اتنے بزدل ہوگئے ہیں کہ اپنے حق کے لیئے لڑنا تو دور کی بات، آواز اُٹھانے کی  ہمت نہیں رکھتے ۔ہم لوگ سیاستدانوں کے جلسے، جلسوں اور ریلیوں میں اُن کی خوشامد کے لیئے نعرے لگانا ،  تالیاں بجانا اورسواے اس کے کچھ نہیں کر سکتے۔  ہمار ی حالت بھی اُس گدھے جیسی ہے جس کی پیٹھ پر جتنا بوجھ رکھ دیا جائے وہ اُسے خوشی خوشی اُٹھا لیتا ہے چاہے وہ اُس بوجھ کو اُٹھانے کی سکت رکھتا ہے یا نہیں رکھتا ، شاید اسی لیئے اُسے گدھا کہا جاتا ہے۔
خیر ہم تو انسان ہیںناں؟پاکستان اس وقت چند وطن فروش سیاستدانوں اوردین فروش عُلمائوں کے چُنگل میں پھنسا ہوا ہے اور اُنہوں نے معصوم عوام کو کٹ پُتلی بنا رکھا ہے جنہیں وہ اپنی مرضی سے نچا بھی رہے ہیں اور لڑا بھی رہے ہیں۔عوام سیاسی پارٹیوں اور فرقوں میں ایسے بٹ چُکے ہیں کہ ،کوئی  ،مسلم لیگی ہے،کوئی پیپلزپارٹی کاہے،کوئی فلاں تو کوئی فلاں۔ یہ ایک لمحہِ فکر ہے کہ آج لوگ اپنی پہچان پاکستانی بن کر یا مسلمان بن کر نہیںبلکہ اپنی سیاسی جماعتو ںکے نام سے یا پھر مذہبی حوالے سے کرواتے ہیں ۔یہاں تک کے 14اگست کادن ہویا پھر پاکستان کا کوئی اور تہوار لوگوں نے پاکستانی سبزہلالی پرچم سے زیادہ اپنی اپنی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے جھنڈے اُٹھائے ہوئے ہوتے ہیںاور یہ سب کچھ جاہل عُلمائوں اور مفاد پرست سیاستدانوں کا کیا دھراہے انہوں نے عوام کو ایسے بکھیر دیا ہے کہ عوام چاہتے ہوئے بھی متحد نہیں ہو سکتے۔اور جو قومیں آپس میں متحد ہوکر نہیں رہتی اُنکا حال پھر ،ایراق اور لیبیا ء جیسا ہوتاہے ایک بڑی سادہ سی اور پرانی کہانی ہم میں سے ہر ایک نے تقریباً سُنی یا پڑھی ہوگی،میں اُس کہانی کو ایک بار پھر سے دوہرانہ چاہتا ہوں کیونکہ کہ اس چھوٹی سی کہانی میں ایک بڑے مقصد کی بات چُھپی ہوئی ہے۔ایک غریب لکڑ ہار ا تھا اُس کے پانچ بیٹے تھے اور پانچوں میں اتقاق بالکل نہیں تھا ۔ لکڑہارے نے ایک دن پانچوں بیٹوں کو بُلایا اور اُن کو پانچ لکڑیوں کی ایک گُٹھا بنا کے دیا اور پھر سب سے کہا کے اس گٹھے کو باری باری توڑنے کی کوشش کرو،لیکن کسی ایک سے بھی لکڑیوں کا وہ گُٹھانہ ٹوٹ سکا ،پھر لکڑہارے نے گُٹھے کو کھول کر ایک ایک لکڑی کو توڑنے کا کہا تو سب نے آسانی سے الگ الگ لکڑیوں کو توڑدیا،تب لکڑہارے نے سمجھایا دیکھا تم لوگوں نے جب پانچ لکڑیوں کا ایک گُٹھا تھا تو تم میں سے کوئی بھی اُسے نہیں توڑ نہیں سکا، اور جب لکڑیوں کو الگ کیا گیا تو آسانی سے ایک ایک ہو کر تما م لکڑیا ں ٹوٹ گئیں،اسی طرح اگر آپ لوگ بھی ا کٹھے اور متحد ہوکر رہو گئے تو تُمیں کوئی نہیں توڑ سکے گا اور اگر نااتفاقی اور آپس میں لڑتے جھگڑتے رہو گئے تو ان لکڑیوں کی طرح ایک ایک ہو کر ٹوٹ جائو گئے۔
اگر ہم سب اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا ہم سب متحد اور ایک قوم ہیں تو یقینا جواب نہ ہی ہوگا۔کیونکہ پاکستان  ایک نہیں بلکہ کئی ٹکڑوں میں بٹ چُکا ہے، سب سے پہلے پاکستان کو زبان اور قوم پرستی کے نام پر تقسیم کیا گیا کوئی سندھی ،بلوچی ، پنجابی، اور کوئی پختونخوان بن گیا ،پھر مذہب کے نام پر تقسیم ہوئے  ،کوئی شیعہ تو کوئی سنی بنا دیا گیا۔  اور باقی کی رہی سہی کسر سیاسی جماعتوں نے پوری کی ہوئی ہے۔ کوئی بھی عالمِ دین اگر قتل وغارت  ،فرقہ وارنہ تعصبات پھیلانے،دہشت گردی اور خود کش حملہ کرنے کی بات کرے تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کوئی عالمِ دین نہیںبلکہ وہ دین فروش کسی دشمن ملک کا ایجنٹ ہے اور اگر کوئی بھی سیاستدان جس کے اپنے اثاثے بیرونی ملکوں میں ہوں ،بزنس دوسرے ملکوں میں کرے، اُنکے بیرونی مُلکوں کے بینک اکائو نٹس ،ڈالرز، پائونڈز، اور یوروز، سے بھرے پڑے ،خود سیاست کرنے کی غرض سے پاکستان میں اور باقی فیملی بیرونِ مُلکوں میں ہو ،اپنا معمولی سے معمولی علاج بھی پاکستان سے باہر کرواتا ہو، تو ایسا سیاستدان یقینا مفاد پرست اور وطن فروش سیاستدان ہی ہوگا۔ ایک ذمہ دار اور مُحبِ وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ہم سب کو ملکر ایسے بے ضمیر دین فروش عُلمائوں اور وطن فروش سیاستدانوں کو اُٹھا کر پاکستان سے باہر پھینکناہوگا،کیونکہ ایسے لوگوں کا نہ تو کوئی وطن ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی دین ان کا مقصداپنا ذاتی مفاد ،اور شَر پھیلانا ہوتاہے۔جس طرح مغربی طاقتوں نے اس وقت عرب ممالک میں اپنی اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے،فلسطین ، ایراق،لیبیا اور سیریاآج تک ان کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہا ہے۔جیسے جیسے یہ طاقتیں آگئے بڑھ رہی ہیںایران کے بعد ان کا ٹارگٹ پاکستان بھی ہوسکتا ہے ۔ پاکستان قوم کی آپس میںنااتفاقی اور گروپ بندی ہی دشمنوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔اگرہم سب پاکستان کی بقاء چاہتے ہیںتو پھر ہم سب کو ، قومیت ، لِسانیت ،سیاسی ،اور مذہبی تعصبات کو بُھلاکر ایک ہونا ہوگا اور پاکستان کے پرچم کو اپنے مظبوط ہاتھوں میں اُٹھا کر یہ عہدکرنا ہوگا اورپوری دُنیاکو یہ بتانا ہوگا کہ پاکستان کی سا  لمیت کے لیئے ہم سب ایک ہیں۔
تحریر : کفایت حسین(یو ۔اے ۔ای )