بیمار قومی ادارے اور لاجواب حکومت

Pakistan

Pakistan

کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی بیمار شخص کا علاج کرانے کی بجائے اس کی جیب میں چند روپے رکھ دیئے جائیں اور وہ ٹھیک ہو جائے یقینا کوئی بھی بیمار شخص بغیر علاج معالجے کے ٹھیک نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسے پیسے دینے سے اس کی بیماری ختم کی جاسکتی ہے لیکن ہمارے حکمراں ہمارے بیمار قومی اداروں کا علاج کرنے کی بجائے انہیں پیسے دے کر صحت یاب اور ٹھیک کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ان اداروں میں ریلوے ،پی آئی اے ،اسٹیل ملزاور واپڈا شامل ہیں جوکہ تباہی کے آخری دہانے پر پہنچ چکے ہیںلیکن حکومت انہیں ٹھیک کرنے یا ان کی بہتری کے لئے ساڑھے تین سال گزر جانے کے باوجود ٹھوس اقدامات کرنے سے قاصر ہے جب  یہ ادارے تباہی کے آخری سرے پر پہنچ جاتے ہیں تو انہیں بیل آئوٹ پیکیج یا خصوصی فنڈز کے ذریعے عارضی طور پر آکسیجن فراہم کردی جاتی ہے لیکن کبھی بھی ہمارے حکمرانوں نے ان قومی اداروںکی تابہی کے اسباب جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی یہی وجہ ہے کہ ریلوے ،پی آئی اے،اسٹیل ملز اور واپڈا جیسے منافع بخش ادارے ناقص پالیسی اور عدم توجہی کے باعث آج آخری سانسیں لے رہے ہیں آخر حکومت کب تک ان بیمار قومی اداروں کو بیل آئوٹ پیکیجز یا خصوصی فنڈز جاری کرتی رہے گی۔
اپنے مستقبل کو تاریک دیکھتے ہوئے کبھی واپڈا کے ملازمین سڑکوں پر آجاتے ہیں تو کبھی ریلوے کے ملازمین ریل کا پہیہ جام کر دیتے ہیں کبھی پی آئی اے اور اسٹیل ملز کے ملازمین احتجاج شروع کردیتے ہیں ملازمین کے احتجاج کا حکومت پر تو کوئی اثر نہیں ہوتا البتہ عوام کو ضرور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے محکمہء ریلوے کی حالت تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے صدر پاکستان آصف علی زرداری کو ریلوے سروس بند کرنے کی پیشکش کردی ہے غلام احمد بلور کا کہنا ہے کہ ریلوے کے بغیر کئی ممالک چل رہے ہیں وزیر موصوف اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے اور استعفیٰ دینے کی بجائے پورے محکمے کو ہی بند کرنے کی پیشکش قابل افسوس اور قابل مزمت ہے کیونکہ ریلوے سروس بند کرنے سے نہ صرف عوام سستے سفر کی سہولت سے محروم ہوجائے گی بلکہ ریلوے کے ہزاروں ملازمین کے گھر کے چولہے بھی بند ہو جائیں گے ریلوے ملازمین کی یونین کے رہنما حافظ سلمان بٹ او ردیگر رہنمائوںکا کہنا ہے کہ جان بوجھ کر ریلوے کو تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے افسران تنخواہیں وصول کررہے ہیں جبکہ ملازمین اور پینشنرز کو ادائیگیاں نہیں کی جا رہی ہے غلام احمد بلور صاحب کی بے وقوفانہ پیشکش کے لئے ہی شاید یہ شعر کہا گیا ہے ۔                                              یہ رہبری کے خول میں یہ رہزنی کی جنگ ہے                                              بہ ضد ہیں یہ مگر کہ انہیں رہبری کا ڈھنگ ہے                                              بخوبی جانتے ہیں یہ کہ یہ عوام سے نہیں                                               وگرنہ کیوں عوام ان سے آج اتنی تنگ ہےمحکمہء ریلوے کی طرح دیگر قومی اداروں کی بھی حالت قدر مختلف نہیں موجودہ حکومت کو ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے لیکن اس جمہوری حکومت نے اپنا یہ عرصہ صرف جمہوریت کو بچانے اور روٹھے ہوئے اتحادیوں منانے میں گزار دیا انتخابات کے دوران عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے انہیں پورا کرنے کی بجائے مہنگائی ،بیروزگاری اور غربت میں اتنا اضافہ کردیا گیا کہ ہمارا ملک غریب ممالک کی فہرست میں تیزی سے ترقی کرکے 45ویںسے 35ویںنمبر پر پہنچ گیا ہے ۔
سابق وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف اپنی تین سالہ وزارت کے دوران بجلی کے بحران کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنے کی بجائے صرف جھوٹے وعدے کرتے رہے انکے وعدے آج بھی نہ صرف عوام کو بلکہ نئے آنے والے پانی و بجلی کے وزیر سید نوید قمر کو بھی اچھی طرح یاد ہیں اسی لئے انہوں نے وزارت سنبھالتے ہی کوئی بھی وعدہ نہ کرنے کا وعدہ کیالیکن نوید قمر صاحب نے اپنی وزارت سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی بجلی کے فی یونٹ میں تین روپے چار پیسے کا اضافہ کرکے تاریخی کارنامہ سر انجام دیا جو کہ ملک کی تاریخ میں کسی بھی وزیر نے سرانجام نہیں دیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوید قمر صاحب سابقہ تمام وزیروں سے دو ہاتھ آگے ہیں حکومت کے اس عمل پر اپوزیشن کی خاموشی بھی ایک سوالیہ نشان ہے اپوزیشن کا کام ہوتا ہے کہ حکومت کے غلط فیصلوں پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں لیکن افسوس اپوزیشن عوامی مسائل پر احتجاج کرنے کی بجائے حکومت اور اس کے اتحادیوں پر بیجا تنقید کرکے آئندہ انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے حکومت اور اپوزیشن میں شامل جماعتوں نے ایسے خود ساختہ  ایشوز پیدا کر دیئے ہیں کہ جن کے سامنے عوامی مسائل ماند پڑگئے ہیں۔
اگر حکومت ریلوے کی ٹرینوں اور پی آئی اے کے جہازوں کو وقت کا پابند بنا دے ،اسٹیل ملز اور واپڈا سے کرپشن کا خاتمہ کردے اور ان اداروں کے ملازمین کو انکے جائز حقوق دیدے تو شاید ان قومی اداروں کو تباہی سے بچایا جاسکتا ہے اور ایک مرتبہ پھر سے ان قومی اداروں کو منافع بخش اداروں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے ورنہ ان اداروں کا اللہ ہی حافظ ہے ۔
تحریر: محمد انصار گدی پٹھان