سارک کا بانجھ پن

saarc conference

saarc conference

حضرت علی شیر خداد نے کہا تھا دوستی کرنا اتنا اسان ہے  جیسے مٹی پر مٹی سے لکھنا مگر دوستی نبھانا مشکل ترین عمل ہے جیسے پانی پر پانی کے ساتھ لکھنا۔پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے مالدیپ میں منعقد ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں شرکا سے درد مندانہ اپیل کی کہ جنوبی ایشیا میں قیام امن اور خوشحالی کے لئے تمام ممالک ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔ سارک کا فرض بنتا ہے کہ وہ خطے کی شاداب و عظیم تہذیب اور ورثے کی ٹھوس بنیادوں پر تبدیلیوں کے لئے لیڈنگ رول ادا کرے۔ وزیراعظم نے 17 ویںسارک کانفرنس میں ایک  طرف ساوتھ ایشیا کو درپیش مصائب و مشکلات کا دانشورانہ انداز میں احاطہ کیا تو دوسری طرف وہ اپنی فراست سے بھارتی ہم  منصب من موہن سنگھ کا دل جیتنے میں کامیاب رہے ۔من موہن سنگھ نے گیلانی کو امن کے پیامبر کا لقب دیاجو قابل ستائش ہے۔ طرفین کی ملاقات میں تجارت معیشت اور عوامی روابط کے حوالے سے باہمی تعلقات کو مذید خوشگوار بنانے کی خاطر بات چیت جاری رکھنے اور خطے میں امن سکون اور ترقی کے لئے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ تعاون کو فروغ دینے کا  فیصلہ کیا گیا۔دونوں نے ڈائیلاگ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ ملاقات کا خوش ائند پہلو تو یہ ہے کہ تمام متنازعہ اور وجہ عناد بننے والے بنیادی ایشوز کشمیر سرکریک پانی دہشت گردی اور تجارت پر بات چیت ہوتی رہی۔  جنوبی ایشیا کرہ ارض پر رب العالمین کا وہ خاص تحفہ ہے جسکے حسن و جمال کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ بحیرہ عرب اور کوہ ہندوکش سے لیکر ہمالیہ کی گود میں سکون کی نیند سونے والے نیپال بھوٹان مالدیپ اور خلیج بنگال کے سحرانگیز باغات سے لیکر سمندر کے نیلگوں پانی تک پھیلے ہوئے بنگلہ دیش پاکستان  اور ہندوستان تک کا خطہ بے نظیر جنوبی ایشیا کے نام سے منسوب ہے۔ جنت کے اس ٹکڑے پر جزیرہ نما مالدیپ اور سری لنکا بھی اباد و شاد ہیں۔ تین چار دہائیوں سے جنگ و جدال کا میدان کارزار بنا ہوا خطہ افغان بھی جنوبی ایشیا سے منسلک ہوچکا ہے۔ دکھ کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ کالونیل دور کی استبدادیت تقسیم برصغیر اور باہمی جنگوں نے جنت کے اس ٹکڑے کو شعلہ جوالہ بنادیا۔ بارود، عداوت انتقام اور مغرب کی چیرہ دستیوں  نے امن کے خرمن کو جلا کر راکھ کردیا۔65 سال کا عرصہ بیت چکا ہے کہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین خونی دشمنی کا جو اغاز روز اول سے شروع ہوا تھا وہ اج تک جاری و ساری ہے۔ تقسیم  ہند  اور تنازعہ کشمیر نے جہاں دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنادیا تو وہاں اسلحے کے گورے سمگلروں نے اپنی شاطرانہ چالوں سے ایسی خون لکیر کھینچی جس نے ار پار کے بھائیوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا۔ دونوں ملکوں کی ایسٹیبلشمنٹ کی ہٹ دھرمیوں کے کارن یہ خطہ اسلحے کی دوڑ کا گڑھ بن چکا ہے۔ جوہری بموں اور ہیبت ناک میزائلوں سے لیس ہونے کے باوجود اسلحے کی دوڑ برق رفتاری سے جاری ہے۔جہاں اربوں ڈالر سالانہ بارود کی موت خریدنے پر خرچ کردئیے جائیں تو وہاں انسانوں کے مقدر میں بھوک و ننگ پسماندگی اور سماجی تضادات  کے کانٹے بھر دئیے جاتے ہیں۔چھ دہائیوں کے بعد دونوں ملکوں کی حالیہ قیادت کے رویوں سے  بہتری کی امیدیں پھوٹتی دکھائی دے رہی ہیں جسکا ثبوت سارک کانفرنس کے اعلامیے اور پاک بھارت منتریوں کی ملاقات کے بعد جاری کئے جانے والے مشترکہ بیانات سے جھلک رہا ہے۔ سربراہان کی ملاقات اور اس میں مختلف ایشوز پر کیا جانیوالا اتفاق رائے باہمی تعلقات کو مذید مضبوط بنانے اور مذاکراتی عمل کو مہمیز دینے میں ممدون ہوگا۔ اتفاق رائے اس امر کی دلالت کرتا ہے کہ بھارت جان چکا ہے کہ ہر قسم کی ترقی اور اگے جانے کے لئے باہمی تعلقات ناگزیر ہیں۔ انڈین پرائم منسٹر نے درست کہا کہ خطے کی سلامتی کے لئے مشترکہ اتفاق رائے ضروری ہے۔ من موہن نے اعتراف کیا کہ اب الزامات تراشیوں اور جوابی الزامات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ سارک ساوتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کواپریشن کا قیام1985 میں عمل میں ایا۔ سارک کے منشور کا بنیادی مقصد خطے کی فلاح و بہبود اور معاشرتی انسانی ترقی میں پنہاں تھا مگر سچ تو یہ ہے کہ سارک26 سالوں سے امتحانات میں فیل در فیل ہوتی رہی۔یہ بانجھ تنظیم اپنے ممبران کی غیر فعالیت اور عدم دلچسپی کے کارن اج بھی بانجھ ہے۔17 ویں سارک کانفرنس کی اہمیت پاکستان کی جانب سے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کی وجہ سے بڑ ھ گئی۔ پاک بھارت تنازعات نے بھی سارک کو ناکامیوں کا سہرا پہنایا۔گیلانی اور من موہن سنگھ کی ملاقات میں طرفین نے تاریخ کا نیا باب رقم کرنے کا جو عہد کیا ہے وہ مستقبل میں سارک کو نئی زندگی فراہم کرسکتا ہے۔پاک بھارت دو ایسے بانکے نرالے اور انوکھے ملک ہیں جہاں ایک اقلیتی مگر طاقتور طبقہ ایسا ہے جو مستحکم ریلیشن شپ کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرتا ارہا ہے۔پاکستان میں زیادہ عرصہ جرنیلوں نے امریت کے مزے لوٹے۔ جرنیل حکمران ہوں تو بھارت کے ساتھ دوستی کے گیت الاپتے رہتے ہیں اگر کوئی جمہوری حکومت عوامی مینڈیٹ کے سہارے دوستی کا ہاتھ ملانے کا جرم کرے تو اسکے ہاتھ کاٹ دئیے جاتے ہیں۔ بھارت کا حال بھی ایسا ہی ہے جہاں انتہاپسند جنونیوں کا ٹولہ موجود ہے جو پاکستان کو صفحہ ہستی سے ملیامیٹ کرنے کا خواہش مند ہے۔یہ جنونی کبھی سمجھوتہ ایکسپریس کے مسافروں کو بھسم کرکے نفرت کو ہوا دیتے ہیں تو کبھی وہ کشمیر میں خون کی ہولیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان طویل عرصہ تک کولڈ وار جاری رہی۔ دونوں سپرپاورز نے افغانستان میں ایک دوسرے کو شکست دینے کے لئے اربوں ڈالرز افغان سوویت جنگ میں بھون ڈالے۔سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ کیا پاک بھارت کے جنونی ٹولے افغانستان کی تاریخ برصغیر میں دہرانا چاہتے ہیں۔ پاک بھارت کے پالیسی میکرز کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کب تک اپنے کروڑوں باشندوں کے حقوق سلب کرکے اربوں  ڈالرز کا اسلحہ خریدتے رہو گے؟ کب تک سوا ارب امن پسند ہندووں اور مسلمانوں کے جذبات  و احساسات کا  خون کرتے رہو گے؟  اخرکب تک صوفیائے کرام اور ولیوں کی امن گاہوں کو بم دھماکوں دہشت گردی اور خون ریزی کا میدان بناتے رہو گے؟  مالدیپ میں گیلانی اور من موہن کی شکل میں ایک بھائی کا عکس ابھر رہا تھا۔دونوں قائدین کا فرض ہے کہ وہ حضرت علی شیر خدا کے محولہ بالہ قول کی روشنی میں نئی دوستی کے سفر کا اغاز کریں۔  ہاتھ ملانا اور زبانی دعوے کرنا  تومٹی پر مٹی سے لکھنے کی طرح اسان اور سہل ہے مگر مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا پانی پر پانی سے لکھنے کے مترادف ہوگا۔ کیا دونوں قائدین ہسٹری  کانیا باب قلمبند کرنے کا عہد نبھا پائیں گے؟ یاد رہے اگر یہ عہد عملی شکل اختیار کرنے سے قاصر رہے تو پھر کم ازکم سارک ایسی نکمی تنظیم کو حرف غلط کی طرح مٹادینا ہی جنوبی ایشیا کی سلامتی کے لئے  لازم عنصر ہوگا۔ تحریر :   روف عامر پپا بریار