سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک

facebook

facebook

سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک اطلاعات کے مطابق اس ہفتے باضابطہ طور پر ایک پبلک کمپنی بننے کے عمل کا آغاز کر رہی ہے اور اسکی مالیت کا تخمینہ 75 سے 100 ارب ڈالر کے درمیان لگایا گیا ہے۔فیس بک کی جانب سے مارکیٹ میں شیئرز لانے کی افواہیں پچھلے کئی مہینوں سے گرم تھیں لیکن اسکا یہی کہنا رہا تھا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہے گی۔فنانشیل ٹائمز اور وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق فیس بک بدھ کو امریکی کمپنیوں کے نگراں ادارے میں کاغذات جمع کرانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ان اخبارات کے مطابق فیس بک کے بطور پبلک کمپنی بننے کے بعد اسے شیئرز کی فروخت سے اس سال کے اختتام تک دس ارب ڈالر کا سرمایہ ملے گا جو کہ امریکہ کی تجارتی شہ رگ وال اسٹریٹ میں شیئرز کی اب تک کی سب سے بڑی فروخت میں سے ایک ہوگی اور اس لحاظ سے فیس بک، گوگل کو بھی پیچھے چھوڑ دے گی جسے 2004 میں پبلک کمپنی بننے پر شیئرز کی فروخت سے ایک اعشاریہ نو ارب ڈالر کا سرمایہ ملا تھا۔مگر اس معاملے میں فیس بک، پھر بھی کار بنانے والی کمپنی جنرل موٹرز سے پیچھے رہے گی جس نے نومبر 2010 میں بیس ارب ڈالر کے شیئرز فروخت کیے تھے۔فیس بک کی بطور پبلک کمپنی مالیت کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے، اس کے نتیجے میں وہ مارکیٹ میں سرمایہ حاصل کرنے کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں شامل ہوجائے گی۔مارک زوکربرگ اور انکے ساتھی نے سنہ 2004 میں فیس بک کی شروعات کی تھی جو جلد ہی دنیا کی سب سے مقبول ترین سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ بن گئی۔سماجی روابط کی مقبول ترین ویب سائٹ فیس بک کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ویب سائٹ پر فحش، عریاں اور تشدد سے بھرپور تصاویر کی اشاعت کی اطلاعات کا جائزہ لے رہی ہے۔یہ تصاویر فیس بک صارفین کی نیوز فیڈ میں دکھائی دیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ٹیکنالوجی ویب سائٹ زیڈڈی نیٹ کا کہنا ہے کہ یہ مواد لنک سپیم وائرس کی مدد سے پھیلایا جا رہا ہے۔فیس بک کی ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس اس کے بارے میں اطلاعات ہیں اور ہم معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں۔فیس بک کے ہزاروں صارفین نے اس بارے میں ٹوئٹر پر بھی تبصرے کیے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا ہے کہ مجھے ایک نئی فحش ویب سائٹ کا پتہ چلا اور اس کا نام ہے فیس بک۔ایک اور صارف کا کہنا ہے کہ فیس بک فوٹو شاپ کی مدد سے بنائی گئی ان عریاں تصاویر سے نمٹے۔ یہ اشتعال انگیز ہیں۔کئی لوگ اس کارروائی کا تعلق اس گمنام گروپ سے جوڑ رہے ہیں جس نے یو ٹیوب پر جاری کی گئی ایک ویڈیو میں اس سوشل نیٹ ورک کو ختم کر دینے کی دھمکی دی تھی۔انٹرنیٹ سکیورٹی فرم سوفوس کا کہنا ہے کہ یہ تصاویر چوبیس گھنٹے سے زائد عرصے سے فیس بک پر گردش کر رہی ہیں۔ کمپنی کے ماہر گراہم کلولی کے مطابق یہ اب تک واضح نہیں کہ یہ اشتعال انگیز مواد کیسے پھیلایا جا رہا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کے فیس بک پر دور رس اثرات پڑ سکتے ہیں۔اپنے بلاگ میں گراہم نے لکھا ہے کہ یہ اس قسم کا مسئلہ ہے جو لوگوں کو ویب سائٹ سے متنفر کر سکتا ہے۔ فیس بک کو اس سے جلد از جلد نمٹنا ہوگا اور آئندہ ایسے کسی واقعے کی روک تھام کرنا ہوگی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک کو اپنی سکیورٹی سیٹِنگز کو ایپل کے ایپ سٹورکے معیار کا کر لینا چاہیے۔سکیورٹی کی کمپنی سوفوز کا کہنا ہے کہ فیس بک پر درخواستوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اس میں سکیورٹی ناقص ہے۔سوفوز نے یہ بات اپنی انٹرنیٹ سکیورٹی پر رپورٹ تھریٹ رپورٹ 2011 میں کہی ہے۔ اس کی تجویز ہے کہ فیس بک کو اس معیار کی سکیورٹی استعمال کرنی چاہیے جیسے ایپل کا ایپ سٹور استعمال کرتا ہے۔ ایپل ہر اس پروگرام کی چھان بین اور سکیورٹی چیکنگ کرتا ہے جو اسے ایپ سٹور پر دستیاب ہے۔تاہم فیس بک نے اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی تحقیق کے مطابق صورتحال بالکل اس کے بر عکس ہے اور اصل میں اس نے اپنے صارفین کی مکمل تحفط کے لیے اقدامات کیے ہوئے ہیں۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ ہماری ایک خصوصی ٹیم موجود ہے جو اس کو دیکھتی ہے اور سب سے بڑے خطرات کا جائزہ لیتی ہے۔تاہم سوفوز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ فیس بک اس وقت انٹر نیٹ فراڈ کرنے والوں کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فیس بک اتنی مقبول سائٹ ہے لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ فیس بک کسی بھی شخص کو اپلیکیشن، گیمز اور جائزے بنانے کی اجازت دے دیتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے فیس بک کو تو فائدہ ہوتا ہے لیکن صارفین کے لیے یوں خطرناک ہے کہ لوگ اکثر دھوکے میں آ سکتے ہیں اور ہیکرز صارفین کی تمام خفیہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیس بک کو ذمہ داری لے کر اپنی سائٹ پر دستیابی سے پہلے ان ایپس کی چھان بین کرنی چاہیے۔فیس بک نے اپنی ویب سائٹ کی سکیورٹی میں نقائص تلاش کرنے والوں کو نقد انعام دینے کا پروگرام شروع کیا ہے اور ابتدائی تین ہفتوں میں اس مد میں چالیس ہزار ڈالر مختلف افراد کو دیے گئے ہیں۔ویب سائٹ کے منتظمین کے مطابق اس بگ بانٹی پروگرام کا مقصد ویب سکیورٹی پر تحقیق کرنے والے افراد کی مدد سے ویب سائٹ کو حملوں سے محفوظ بنانا ہے۔اس پروگرام میں حصہ لینے والے ایک محقق نے سماجی رابطے کی اس مقبول ترین ویب سائٹ کی سکیورٹی میں چھ نقائص کی نشاندہی کر کے سات ہزار ڈالر حاصل کیے ہیں۔فیس بک کے چیف سکیورٹی افسر جو سلیون نے اپنے بلاگ میں اس پروگرام کی کچھ تفصیلات ظاہر کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پروگرام سے فیس بک کو انوکھے حملوں کا پتہ چلا ہے اور اس کی مدد سے اسے زیادہ محفوظ بنا دیا گیا ہے۔ان کے مطابق کسی بھی نقص کی نشاندہی کے لیے کم سے کم ادائیگی پانچ سو ڈالر کی گئی جبکہ بڑے نقائص کی نشاندہی پر پانچ ہزار ڈالر کی زیادہ سے زیادہ رقم بھی ادا کی گئی ہے۔سائبر مجرم اور نقب زن فیس بک کو لوگوں کی معلومات کے حصول، سپیم کے فروغ اور جعلی اشیا کی فروخت کے لیے ہدف بناتے ہیں۔جو سلیون کے مطاق فیس بک میں نقائص کی تلاش کا ایک اندرونی نظام بھی موجود ہے اور وہ اپنے اس کوڈ کا جائزہ لینے کے لیے بیرونی ماہرین کی مدد بھی لیتی ہے۔فیس بک نے سنہ 2010 میں ایک نظام قائم کیا تھا جس میں ویب سائٹ میں نقائص کی نشاندہی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی تھی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ گوگل اور موزیلا جیسی کمپنیاں پہلے ہی اس قسم کی سکیم چلا رہی ہیں جو نقائص کی نشاندہی میں بیحد مددگار ثابت ہوئی ہیں۔خیال رہے کہ ماضی میں فیس بک کی سکیورٹی پر تنقید ہوتی رہی ہے۔رواں سال کے آغاز میں انٹرنیٹ سکیورٹی کی کمپنی سوفوز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ فیس بک اس وقت انٹرنیٹ فراڈ کرنے والوں کا سب سے بڑا نشانہ ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ فیس بک کسی بھی شخص کو اپلیکیشن، گیمز اور جائزے بنانے کی اجازت دے دیتا ہے۔سماجی رابطوں کی مقبول ویب سائٹ فیس بک نے ویڈیو چیٹ کی ویب سائٹ سکائپ کے ساتھ شراکت داری کا اعلان کیا ہے۔اس شراکت داری کی وجہ سے فیس بک پر ویڈیو چیٹ کی جا سکے گی۔فیس بک کی جانب سے سکائپ کے ساتھ شراکت داری کا مقصد فیس بک کے حریف گوگل کی سماجی رابطے کی ویب سائٹ گوگل پلس کا جواب دینا ہے۔اگرچہ یہ پہلا موقع ہے کہ فیس بک اور سکائپ نے شراکت داری کا اعلان کیا ہے لیکن اس سے پہلے دونوں ادارے پیغامات کے کچھ ٹولز کا تبادلہ کر رہے تھے۔مائیکروسافٹ کی جانب سے سکائپ کو خریدنے کا عمل جاری ہے جبکہ فیس بک میں مائیکرو سافٹ کا بڑے شیئر یا حصہ ہے۔فیس بک پر سکائپ نئی ویڈیو کال سروس کا افتتاح فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ فیس بک کے صارفین کی تعداد پچہتر کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔تاہم انھوں نے کہا کہ فیس بک کی مقبولیت کا اندازہ اب اس کے صارفین کی تعداد سے نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ اب ویب سائٹ پر ویڈیو لنکس، ویب لنکس اور تصاویر کی شیئرنگ سے زیادہ بہتر طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح سے لوگ ویب سائٹ سے جوڑے ہوئے ہیں۔گوگل پلس کے برعکس فیس بک پر سکائپ کے ذریعے دو افراد ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست ویڈیو چیٹ یا بات چیت کر سکیں گے جب کہ گوگل پلس میں ویڈیو بات چیت صرف گروپ کی شکل میں ہو سکتی ہے۔مارک زکربرگ نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ سکائپ کے دیگر فنکشنز بھی مستقبل میں فیس بک پر شامل کیے جائیں۔انٹرنیٹ کے ایک بڑے گروپ گوگل نے فیس بک کے مقابلے میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ گوگل پلس کا آغاز کر دیا ہے۔فیس بک کے مطابق اس کے صارفین کی تعداد پچاس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔گوگل پلس پر انفرادی طور پر تصاویر اور پیغامات کا تبادلہ کرنے کے علاوہ گوگل کی نقشوں اور تصاویر کی سہولیات موجود ہوں گی۔اس کے علاوہ صارفین کو آسانی سے گروپس کے اندر ہی رابطوں کو منظم کرنے میں آسانی ہو گی۔کلِک  فیس بک کی گوگل مخالف مہمبعض ماہرین کا کہنا ہے کہ گوگل پلس میں فیس بک کی خصوصیات کا ہی دوبارہ سے استعمال کیا گیا اور اضافی طور پر اس میں ویڈیو چیٹ یا ویڈیو بات چیت کا اضافہ کیا گیا ہے۔گوگل نے حالیہ سالوں میں فیس بک کے کے مقابلے میں متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔ تاہم ماضی میں گوگل کو اس حوالے سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔گوگل کی جانب سے شروع کیے جانے والے گوگل ویوز اور گوگل بز کو صارفین میں مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی تھی۔اس بار گوگل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ گوگل پلس میں چار نئی خصوصیات شامل کی ہیں جس کی مدد سے اسے سماجی رابطے کی ویب سائٹس کا ایک اہم کھلاڑی بننے میں مدد مل سکتی ہے۔گوگل نے گوگل پلس کو ابھی صارفین کی ایک محدود تعداد کے لیے جاری کیا ہے لیکن کمپنی کا کہنا ہے کہ جلد ہی ویب سائٹ لاکھوں صارفین روزانہ کی بنیاد پر استمعال کرنے کے لیے دستیاب ہو گی۔گوگل سروسز کی نائب صدر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آن لائن شیئرنگ کو سنجیدگی سے دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گوگل کو فیس بک کے پرستار صارفین کو اپنی ویب سائٹ پر لانے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ایک تحقیقاتی کمپنی ای مارکیٹنگ سے منسلک تجزیہ کار ڈیبرو آہو ویلمیسن کا کہنا ہے کہ فیس بک پر صارفین کے اپنے سماجی حلقے ہیں اور اس صورت میں ان کو ایک نیا حلقہ بنانے کے لیے کہنا ایک مشکل کام ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ اس کے صارفین کی تعداد میں کمی آئی ہے۔فیس بک کا یہ بیان ان سائڈ فیس بک نامی نگرانی کرنے والی ویب سائٹ کے دعوے کے بعد آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ مئی میں فیس بک کے صارفین کی امریکہ میں ساٹھ لاکھ اور برطانیہ میں ایک لاکھ کی کمی ہوئی ہے۔اس دعوے کے جواب میں فیس بک کا کہنا تھا کہ ویب سائٹ پر صارفین کی تعداد میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو رہا ہے اور اضافے کے نتائج سے ادارہ خوش ہے۔ہمیں اکثر ایسی خبریں ملتی رہتی ہیں کہ صارفین کی تعداد میں کئی علاقوں میں کمی آئی ہے۔ ان میں سے کئی رپورٹیں ہماری ویب سائٹ پر موجود اشتہاروں کی تعداد کی مدد سے تیار کی جاتی ہیں۔تاہم ان اشتہارات سے صرف یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اشتہار کہاں کہاں دیکھے اور پڑھے جا رہے ہیں۔ لیکن ویب سائٹ کے صارفین کی مجموعی تعداد میں اضافے یا کمی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ہم صارفین کی بڑھتی تعداد اور ان کے فیس بک کو استعمال کرنے سے مطمئین ہیں۔ رجسٹرڈ صارفین میں سے پچاس فیصد سے زائد روزانہ کی بنیاد پر ویب سائٹ کو استعمال کرتے ہیں۔ان سائڈ فیس بک کے مطابق رواں سال مئی میں صرف کینیڈا میں پندرہ لاکھ صارفین نے فیس بک کا استعمال ترک کر دیا۔لیکن مکمل جائزے کے مطابق صارفین میں اضافہ ہوا ہے اور ان کی کل تعداد اب چھ سو ستاسی ملین تک پہنچ گئی ہے۔دوسری نگرانی کرنے والے ویب سائٹس کے نتائج بھی اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ فیس بک کو استعمال کرنے والے دنیا بھر میں بڑھ رہے ہیں۔نگرانی کرنے والیادارے نیلسن کے ترجمان کے بقول، چند ایسے ماہ ہوتے ہیں جن میں صارفین کی تعداد کم ہو جاتی ہے لیکن میں ان نتائج کو مستقل نہیں کہوں گا۔علی بھائی