شاہ احمد نورانی زمانہ ساز مدبر اور دیدہ ور رہنما ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

Shah Ahmed Noorani

Shah Ahmed Noorani

تاریخ انسانی گواہ ہے کہ ہمیشہ اہل حق، کفرو منافقت اور باطل قوتوں کے خلاف نہ صرف سینہ سپر رہے ہیں انھوں نے طاغوتی قوتوں کا ڈٹ کرمردانہ وار مقابلہ کیا اور اسلام کے پرچم کو کبھی بھی کسی یزیدی دربار میں سرنگوں نہیں ہونے دیا، اُن اہل حق کی نگاہیں ہمیشہ منزل مقصود پر رہی ،کارواں میں کون شامل ہوا اور کون چلاگیا، کس نے کس موڑ پر مجبوریوں کا بہانہ بنایا اور کس نے مصائب وآلام سے گھبرا کر یا خار دار راہوں میں تھک کرساتھ چھوڑ دیا ، نادان دوستوں کی مخالفت ، دانا دشمنوں کی تباہ کن سازشیں یا جماعت کی آستینوں میں بت ، وہ اِن تمام باتوں اور اندیشوں سے بے نیاز ہوتے ہیں اور الزامات کے خارزاروں ، مخالفت کی پرخطرگھاٹیوں اور بغض او ر حسد کے کانٹوں کی پرواۂ کیۓ بغیر عازم سفر رہتے ہیں۔
انھیں وقت کی کوئی بھی رکاوٹ ، اذیت ناک ماحول ، حوادث اور ناخوشگوار واقعات ، لمحے بھر کیلئے بھی بے چین نہیں کرسکتے، وہ خنداں پیشانی کے ساتھ مسکراہٹیں تقسیم کرتے ہوئے دلوں کو فتح کرتے ہیں اور دنیا کے نقشے بدلتے چلے جاتے ہیں،ایسے مردان حق روز روز پیدا نہیںہوتے مفکر اسلام علامہ اقبال ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں

تجھے معلوم بھی ہے کچھ کہ صدیوں کے تفکر سے
کلیجہ پھونک کر کرتی ہے فطرت اک بشر پیدا

حقیقت بھی یہی ہے کہ صدیوں کے الٹ پھیر اور افلاک کی ہزاروں گردشوں کے بطن سے ایک ایسا دانائے راز پیدا ہوتا ہے جس کی جہد مسلسل سے ریگستانوں کو سیراب کرنے والے ہزاروں چشمے پھوٹتے ہیں، اُس کے نفس شعلۂ بار سے سحرنو کا پیغام لے کر لاکھوں آفتاب طلوع ہوتے ہیں۔

بیسویں صدی کا آغاز اُمت مسلمہ کیلئے جن بدترین حالات میں ہو ا،اُس کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،لیکن اِس تاریک دور میں اللہ ربّ العزت نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے ایسے منتخب افراد سے اُمت کو نوازا جنھوں نے ہر میدان میں چومکھی لڑائی لڑی اورظلم و استحصالی نظام کا سینہ چیر کر شمعٔ رسالت ا کی روشنی کو اِس طرح سے پھیلایا کہ غفلت،غلامی اورناامیدی کے سائے چھٹ گئے اور احیائے اسلام اوراُمت مسلمہ کی اجتماعی وحدت و عالمگیر قوت کی حیثیت سے ابھرنے کے آثارنو پیدا ہونے لگے، موجودہ صدی میںجن نفوسِ قدسیہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ کام لیا،اُن میں حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو ایک ممتاز حیثیت اورمنفرد مقام حاصل ہے،یکم اپریل 1926کومبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی صاحب کے گھر پیدا ہونے والے اِس فرزند ارجمند نے اپنے ایمان ،ضمیراور نسبی تقاضوں کوسامنے رکھ کر احقاق حق اور ابطال ِ باطل کی جو شمع روشن کی وہ احیائے اُمت کی عالمی تحریک بن کے مشرق و مغرب کے دور دراز گوشوں تک پھیل چکی ہے۔

مولانا نورانی کا خاندان قومی اور ملّی حوالوں سے نمایاں خدمات کی شاندار روایات کا امین ہے،آپ کے آباؤ اجداد عرب سے آکر میرٹھ میں آباد ہوئے، یہ وہی میرٹھ شہر ہے، جہاں کے حریت پسند غیور مسلمانوں نے انگریز کے خلاف 1857 ء میں جنگ آزادی کا آغاز کرکے تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی اوراس تحریک آزادی کی آبیاری میں مولانا نورانی کے خاندان کا بھی حصہ رہا، مولانانورانی کے خاندان کا شمار میرٹھ کے مشہور علمی اور صوفی گھرانوں میں ہوتا تھا،آپ کے دادا شاہ عبد الحکیم میرٹھ کی شاہی مسجد کے خطیب تھے، برصغیر کے مشہور ادیب و شاعر مولانا اسمعیل میرٹھی آپکے دادا کے سگے بھائی تھے،مشہور عالم دین مولانا مختار احمد صدیقی ،مولانا بشیر احمد صدیقی،اور مولانا نذیر احمد خجندی ، آپ کے والدمولانا عبد العلیم صدیقی کے سگے بھائی تھے،مولانا نورانی کے تایا مولانا نذیر احمد خجندی صدیقی بمبئی کی جامع مسجد کے خطیب تھے ، جن کے دست اقدس پر قائد اعظم کی ہونے والی بیوی رتن بائی نے اسلام قبول اور آپ نے قائد اعظم کا نکاح پڑھایا،مولانا نذید خجندی نے تحریک خلافت میں فعال کردار ادا کیا اور گرفتار بھی ہوئے، آپ کے والد علامہ عبد العلیم صدیقی جن کی تدفین جنت البقیع میں اُم المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قدموں میں ہوئی، نامور عالم دین ،خطیب اور مبلغ اسلام تھے،آپ کی تبلیغ مساعی کے نتیجے میں ساٹھ ہزار سے زائد غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔

مولانا شاہ احمد نورانی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی، آٹھ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا،تجوید وقرأت کی تعلیم مدینہ منورہ میں مشہور قاری الشیخ حسن الشاعر سے حاصل کی، 1944ء میںاٹھارہ سال کی عمر میں درس نظامی کی تکمیل کی،آپ کی دستار بندی مفتی اعظم ہند فرزند اعلیٰ حضرت مولانا شاہ مصطفی رضا خاں ، صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی ،والد گرامی مبلغ اسلام مولاناشاہ عبدالعلیم صدیقی اور آپ کے استاد محترم مولانا غلام جیلانی میرٹھی علیہم الرحمہ نے کی،1945ء میں 19 سال کی عمر میں آپ نے ا لٰہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کرتے ہی سیاست میں عملاً حصہ لینا شروع کردیا،1946ء میں آپ نے مسلم نوجوانوں کی تنظیم” نیشنل گارڈ ”کی بنیاد رکھی اور انتخابات میںمسلمانوں کی نمائند ہ جماعت مسلم لیگ کی کامیابی کیلئے بھر پور جد و جہد کا آغاز کیا،1947 ء میں پہلی مرتبہ سیاست میں حصہ لینے پر ڈیفنس انڈیا رولز کے تحت گرفتار ہوئے اور دو ہفتے کیلئے جیل گئے۔
علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی 1948ء میں والد ماجد کے ہمراہ پاکستان تشریف لائے اور 1953میں قادیانیوں کے خلاف تحریک ختم نبوت میں بھر پور حصہ لے کر پاکستان میں اپنی مذہبی وسیاسی زندگی کا آغاز کیا۔12 سے زائد زبانیں جاننے اورخالی ہاتھ با عزت وباوقار زندگی گزارنے والے مولانا شاہ احمد نورانیپر کشش و باکمال شخصیت کے مالک تھے ،آپ بزرگوں اور اسلاف کے کمالات سے مزّین ،نجابت و شرافت کا نمونہ ،وقار و تمکنت کا خزینہ،ظاہر ی و باطنی لطافت ونظافت کا مجسمہ، حسن و جمال و فضل و کمال کے عظیم پیکر اور عاجزی و انکساری کی اعلیٰ مثال تھے۔
مولانا نورانی اپنی ذات کے بارے میں انتہائی کم گو اور منکسرالمزاج تھے ،آپ کی ساری زندگی اعلائے کلمتہ الحق کی جدوجہد میں گزری ،اتحاد اُمت کی تڑپ اور بلاد کفر میں اشاعت اسلام اور عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ آپ کی زندگی کے بنیادی نصب العین رہے،آج مولانا نورانی کی ذات مبارکہ صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ اُمت مسلمہ اور پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے سرمایہ افتخار ہے،آپ ایک نادر روز گار مفکر ، بے باک قائد ، زمانہ ساز مدبر،ایک حیات آفریں شخصیت کے مالک ، انقلاب نظام مصطفی کے نقیب اور سب سے بڑھ کر تسلیم و رضا کے پیکر اور سچے عاشق ِ رسول ا تھے،آپکی 78 سالہ زندگی دین اسلام کے عملی نفاذ ، دینی قوتوں اورجمہوری اداروں کی فروغ وبقاء ،پاکستان کے استحکام و سا لمیت ، مسلم وحدت کی جہد مسلسل اوراحیائے اسلام و کفر کے خلاف عالم اسلام کی بیداری سے عبارت ہے۔

مولانا نورانی ایسے ہی منتخب مجاہدین میں سے ہیں، جنھوں نے عصر حاضر میں علمی فکری اور روحانی و مذہبی محاذ پربھر پور جہاد کیا،آپ زوال آشنا ملت اسلامیہ کی نشاطِ ثانیہ کی علامت اور عصرِ حاضر میں قوت و اقتدار کے بدلتے ہوئے معیاروں کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی بھر اسلام کے عادلانہ سیاسی ،سماجی ،ثقافتی اوراقتصادی نظام کے قیام کیلئے مصروف جہاد رہے، آپ کی تکبیرِ مسلسل دشت وصحرا ، شہراوربیابانوں میں زندگی بھرصدائے حق بلند کرتی رہی،آپ کی ساری زندگی طاغوتی نظام کے علمبرداروں کے خلاف ایک چیلنج ، بھٹکے ہوئے کارواں کی نقیب ، بھولے ہوئے نغموں کی ایک صدا،ملت کے درد کا درماں ، بے قرار دلوں کی دھڑکن اور صدیوں کی حرماں نصیبی کے بعد ایک اُمیدکی کرن کی مانند رہی،آپ نے تشکیک و اضطراب کے اِس پر فتن دور میں لاکھوں قلوب و اذہان کو ایمان اور یقین کی لازوال دولت سے سرفراز کیا،عصرحاضر میں آپ نظامِ مصطفی ا کی اصطلاح کے نہ صرف خالق بلکہ قافلۂ انقلاب ِ نظامِ مصطفی ا کے میر کارواںبھی رہے، آپ اُمت کو ماسکو اور واشنگٹن کے بجائے گنبدِ خضرا ء کا راستہ دکھانے والے تھے،آپ فرمایا کرتے تھے ”ہماری منزل اسلام آباد نہیں بلکہ اسلام ہے،ہمارے سفر کی منتہائے معراج لندن، پیرس، اور واشنگٹن نہیں بلکہ مکّہ مکّرمہ اور مدینہ منورہ ہے۔” اس لیے آپ نے اقتدار کے بجائے ہمیشہ حزبِ اختلاف کی سیاست کی، تحریک ختم نبوت 1953 ء سے لیکر 11، دسمبر 2003 ء تک، حزبِ اختلاف کی سیاست کا اتنا طویل ، حوصلۂ شکن،اور صبر آزما سفر کوئی مرد قلندرصاحبِ عزیمت واستقامت ہی طے کر سکتا ہے۔

تاریخ نے لیلائے اقتدار کی بھول بھلیوں میں جہاںوقت کے نامی گرامی افراد کو گم ہوتے، اسلام کو اپنی منزل قرار دینے والوں کو اسلام آباد کے اسٹیشن پر اُترتے اور فوجی آمروں کی آغوش میںوزارتوں کے مزے لوٹتے دیکھا ہے،وہیں تاریخ اِس بات کی بھی گواہ ہے کہ مولانا نورانی وہ واحد دیدہ ور،حق پسند و حق آگاہ اور صاحبِ بصیرت رہنما تھے،جنہوں نے جنرل ایوب خان،جنرل آغا محمد یحییٰ خان ،ذوا لفقار علی بھٹوجنرل محمد ضیاء الحق،نواز شریف اورجنرل پرویز مشرف تک ہر آمر وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمۂ حق بلند کیا،آپ قومی اسمبلی ،سینٹ اور عوامی فلور ہر مقام پر بہادر نڈر، بیباک ،حق وصداقت اورنہ جھکنے اور نہ بکنے والی قیادت کی علامت تھے،مولانا نورانی زندگی بھر اپنے ہدف اور مشن پر ڈٹے رہے،پائے استقامت میں معمولی سی لغزش بھی آپ کو گوارہ نہ تھی۔
لیلائے اقتدار کی غلام گردشیں ، بھول بھلییاں اور کشش کبھی اِس غلامِ مصطفی اکو اپنے دامِ فریب میں نہ الجھا سکی اور وہ دیوانہ مصطفی ا اسوۂ شبیّری کی پیروی کرتا ہوا وقت کے ہر آمرکے سامنے کلمہء حق بلند کر تادکھائی دیا ،مولانا نورانی اُن معدودے چند علماو سیاستدانوں میں سے تھے جن کے دامن پر نہ تو سول و فوجی آمروں سے سمجھوتے کا کوئی داغ تھا اور نہ ہی حکمرانوں کی مراعات اور ایجنسیوں کی نوازشات کی کوئی چھینٹ تھی، جس طرح ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زندگی کا ہر پل اور ہر لمحہ اپنے محبوب کی اتباع اور پیروی میں گزرتا ہے،بالکل اُسی طرح مولانا نورانی کی زندگی کا زیادہ تر حصہ پاکستان اور بالخصوص دنیا بھر میں احیائے اسلام اور تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی جدوجہد میں گزرا۔

مولانا نورانی مسلم قومیت اور اتحاد بین المسلمین کے علمبردار اور ملک میں نظام مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے نفاذ کے داعی تھے ،اپنی عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد سے لے کر اپنے وصال تک مولانا نورانی کی زندگی کا اِک اِک پل نظام مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے نفاذ، مقام مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے تحفظ، عالم اسلام کی یکجہتی اور دین اسلام کے غلبہ و سربلندی کی جدوجہد میں گزرا،مولانا نورانی ایک دیدہ ور ،صاحبِ نظرو بصیرت،زہد و تقویٰ ،مظہر صدق و صفا ،مردِ حق آگاہ،نابغہ روز گار،عالم با عمل،قائد ِ بے مثال ، عالمی مبلغ و داعی،اور امام اُمت تھے،آپ نے فکرو عمل کے جوچراغ روشن کیے وہ صدیوں تک تاریک راہوں پر مسافرانِ حق کیلئے علم و عمل کی روشنی بکھیرتے رہیں گے،آج آپ کی سادگی، متانت، خوش مزاجی ، خوش گفتاری اور اصول پرستی یاد رہ جانے والی باتیں بن کر رہ گئیں ہیں اورآپ کی وفات سے پاکستانی سیاست ایک تجربہ کارمنجھے ہوئے پارلیمینٹیرین اور قد آور بین الاقوامی مذہبی و سیاسی شخصیت سے محروم ہوگئی ہے۔ تحریر :۔ محمد احمد ترازی