شاہ مردان شاہ دوئم المعروف پیرپگاڑا

pir pagara

pir pagara

حُر قبیلہ کے روحانی پیشوا شاہ مردان شاہ دوئم المعروف پیرپگاڑا اب اس دنیا میں نہیں رہے۔وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کی قربانیوں پر قوم آج بھی فخر کرتی ہے۔ سندھ میں حُر تحریک کا روحانی پیشوا پیر پگاڑا یا پیر پگارا کے لقب سے جانا جاتا ہے جبکہ شاہ مردان شاہ دوئم اس قبیلہ کے ساتویں پیر تھے ۔ پیر پگاڑا کی وفات کے بعد مرحوم کے بڑے فرزند پیر صبغت اللہ شاہ راشدی عرف راجہ سائیں ”پیرپگاڑا ”کے منصب پر فائز ہو کر حُر جماعت کے آٹھویں پیر منتخب ہوگئے ہیں۔ پہلی حُر تحریک 1830ء میں پیر صبغت اللہ شاہ اول کے دور میں شروع ہوئی، دوسری حُر تحریک (1847ء ۔ 1890ئ) سید حزب اللہ شاہ تخت دھنی کے دور میں شروع ہوئی، حُر تحریک کا تیسرا مرحلہ 1895ء میں چلایا گیا جبکہ چوتھے مرحلہ میں پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی المعروف سوریہہ بادشاہ نے 1928ء میں حُر تحریک کی بنیاد رکھی۔ حُروں نے انگریزوں کے خلاف متعدد مرتبہ علم جہاد بلند کیا اور سندھ پر انگریزوں کے قبضے کے بعد بھی کافی عرصے تک چین سے نہ بیٹھنے دیا جبکہ ان سرفروشوں نے انیس سو پینسٹھ کی جنگ بھی پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑی اور بھارت کے کشن گڑھ کے قلعے پر قبضہ کیا۔  پیر پگاڑا کے بزرگوں نے جس ولولہ انگیزی اور حریت فکر کا مظاہرہ کیا ایسی مثالیں تاریخ میں بہت کم ہی ملتی ہیں۔ انگریز سامراج نے برطانوی راج میں حُر قبیلہ کوکالعدم قرار دیکر شاہ مردان شاہ دوئم المعروف پیر پگاڑا کے والد صبغت اللہ شاہ المعروف سوریہہ بادشاہ کو پھانسی دے دی تھی اور بعد میں ان کے بیٹوں کو برطانیہ منتقل کر دیا تھا۔ مرحوم شاہ مردان شاہ (دوئم) قیامِ پاکستان کے پانچ برس بعد برطانیہ سے واپس پاکستان آ کر نہ صرف حُروں کے پیرپگاڑا منتخب ہوئے بلکہ ساتھ ہی سیاسی میدان میں بھی کود پڑے۔ وہ مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ تھے جنہوں نے اپنی آدھی زندگی سیاست کی نذر کر دی تھی جبکہ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ پیرپگاڑا نے 1953ء اور 1954ء میں فرسٹ کلاس کرکٹ بھی کھیلی۔ مرحوم پیر پگاڑا کو پاکستانی سیاست میں ”کنگ میکر” کا نام بھی دیا جاتا تھا اور اُن کی وفات سے ہم ایک محب وطن سیاست دان سے محروم ہو گئے ہیں۔بطور سیاست دان پیر پگاڑا حالات و واقعات پر نظرعمیق رکھتے تھے اور آنے والے وقت اور مستقبل کے موقع و حالات کی نشاندہی کرکے قوم کو باخبر رکھتے تھے۔ وہ ہمیشہ بڑے لطیف انداز میں طنز و مزاح کے ذریعے ایسی چٹ پٹی باتیں کرتے جن سے سیاست دان اور عوام دونوں محظوظ ہوتے تھے۔ پاکستانی سیاست کا کنگ میکر ہونے کے ناطے پیر پگاڑا سیاسی پیش گوئیاں بھی کرتے رہے اور ان پیش گوئیوں کو ہمیشہ بڑی اہمیت دی جاتی رہی۔ وہ یہ پیش گوئیاں روحانی طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ مضبوط معلومات کی بنیاد پر کرتے تھے۔ اُن کی پیش گوئیاں پوری ہوں نہ ہوں لیکن ملک بھر میں موضوعِ بحث ضرور بن جاتی تھیں۔ مرحوم بڑی سے بڑی سنجیدہ بات کو مزاحیہ انداز میں پیش کر دیتے تھے لیکن واقفان حال سمجھ جاتے کہ پیر صاحب کی اصل مراد کیا ہے تاہم ان کی یہ سیاسی پیش گوئیاں بہت کم پوری ہوئیں لیکن ان میں بہت سے معنی چھپے ہوتے تھے۔ پاکستان کے منجھے ہوئے سیاستدان بھی اُن سے صلاح مشورہ کرتے رہتے تھے۔ کراچی میں کارساز کے قریب ان کا کنگری ہائوس شہر میں ہم سیاسی مرکز سمجھا جاتا ہے۔اپنی زندی کی آخری سیاسی پیش گوئیوں میں پیرپگاڑا کا کہنا تھا کہ آئندہ ججز پر مشتمل حکومت ہوگی، نواز شریف کا مستقبل تاریک ہے، جوڈیشل مارشل لاء لگے گا اور سب کا احتساب ہوگا۔ اس مارشل لاء سے عوام خوش جبکہ سیاست دان پریشان ہو نگے۔ پاکستان کی حالیہ سیاسی غیر یقینی کی صورتحال کے دوران پیرپگاڑا کا کہنا تھا کہ حکومت کیلئے میمو نہیں بلکہ یہ مہینہ خطرناک ہے، میمو کاغذ کا ٹکڑا ہے، سفیر بدلیں یا نہ بدلیں، فون نمبر ضرور بدل جائیں۔  پیر پگاڑا کی زندگی میں اُن کی آخری سالگرہ کے دن جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا انتخابات ہوں گے تو ان کا جواب تھا کم سے کم ان کی زندگی میں تو نہیں ہوں گے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیر پگاڑا کو علم فلکیات سے بھی رغبت تھی اور زندگی کے آخری ایام میں اُنہوں نے میکائو طوطا پال رکھا تھا، جس سے وہ ایک نجومی کا روپ لگتے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پیر پگاڑا ایک محب وطن سیاست دان تھے۔ اُنہوں نے آج تک دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے پاکستان کی ساکھ یا پاکستان کو نقصان پہنچے بلکہ اُن کی حُر فورس دونوں جنگوں میں پاک فوج کے شانہ بشانہ رہی۔ ایک لمبے عرصے سے سیاست میں براجمان رہنے کے باوجود ہر حوالے سے اُن کا کردار صاف اور شفاف رہا۔ پیر پگاڑا کی سیاست میں جو خوبیاں پائی جاتی تھیں وہ دوسرے سیاست دانوں میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اُن کی سیاسی جماعت ہمیشہ پُرامن رہی اور خود کو لڑائی جھگڑوں کی سیاست سے بھی دور رکھا۔ان کی وفات سے پاکستان جہاں ایک مدبر اور بزرگ سیاست دان سے محروم ہوا ہے وہاں ملکی سیاست کا ایک اور باب بھی بند ہو گیا ہے۔اللہ رب العزت مرحوم کو غریق رحمت کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔آمین تحریر: نجیم شاہ