قسمت کی دیوی اورعمران خان

imran khan

imran khan

تعلقات زندگی کا جال ہیں ۔ حلقہ احباب کی صحبت کے اثر سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا ۔وہ ہماری سوچ اور رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ہمارے خیالات ،احساسات ،معاملات اورفیصلوںکومتاثر کرتے ہیں ۔اکثر کامیاب لو گ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کو ایسے دوست اور تجربہ کار ناصح نصیب ہوئے جنہوں نے ہر مشکل وقت میں ایسی رہنمائی کی جن کی رہنمائی نے نہ صرف انہیں مشکلات سے نکلنے میں مددکی بلکہ آگے بڑھنے میں بھی مدد دی ہے ۔اگر انسان کو اچھے صاف گواور تجربہ رکھنے والے دوستوں کاساتھ ملے تو انسان نہ صرف بڑے بڑے خواب دیکھنے لگتا ہے بلکہ بڑے بڑے فیصلے بھی کرنے لگتا ہے ۔آج کل قسمت کی دیوی عمران خان پر مہربان ہے ۔جاوید ہاشمی نے ان کا ساتھ دینے کی حامی کیا بھری انھوں نے اپنے منشور کاا علان بھی کردیا اورقوم سے بہت بڑے بڑے وعدے بھی کرڈالے جن میں سب سے اہم وعدہ 90دن کے اندر کرپشن کے خاتمے کا ہے ۔اگر ہم معاشرے میں پھیلی ہو ئی کرپشن کی جڑوں کو دیکھیں تو لگتا تو نہیں کہ ایسا ہوسکتا ہے ۔لیکن مایوسی گناہ ہے اس لیے اچھے وقت کی امید تو کرنی چاہیے ۔امید کے ساتھ ساتھ ہمیں کرپشن کے خاتمے کے لیے بہت بڑے اور مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔ہمیں اس بات کی سچائی پر کبھی شک نہیں کرنا چاہیے کہ آگے بڑھنے کی راہ ان فیصلوں سے ہموار یا دشوار بنتی ہے جو ہم زندگی میںکرتے ہیں۔چھوٹے موٹے فیصلے سبھی کرتے ہیں ۔یہ کام بہت آسان ہوتا ہے ،لیکن معمولی فیصلوں کے نتائج بھی معمولی ہی ہوا کرتے ہیں ۔لیکن جو لوگ بڑے اور مشکل فیصلے کرتے ہیں ۔وہی دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں ۔لیکن اکثر لوگ جب مشکل وقت آتا ،پیچیدگی بڑھتی ہے تو مشکل فیصلے کرنے اور چھلانگ لگا کر آگے بڑھنے کی بجائے حالات  سے منہ موڑلینے میں عافیت محسوس کرتے ہیں ۔اس طرح ان کو عارضی طور پرتو عافیت مل جاتی ہے لیکن مشکل نہیں ٹلتی ۔بلا شبہ اس وقت پاکستانی قوم بہت سی مشکلات کا سامنا کررہی ہے۔اور بات میں بھی کسی کوشک نہیں ہونا چاہے کہ اس وقت ہمیں ان مشکلوں سے نکلنے کے لیے بہت سے مشکل فیصلے کرنے ہونگے ۔شائد عمران خان نے بھی انھیںمیں سے ایک فیصلہ کرلیا ہے ۔جووہ 90دن میں کرپشن کاخاتمہ کرنے کی بات کررہے ہیں ۔قوم کو اپنے سیاست دانوں پر ا عتبار تونہیں لیکن پھر بھی رسک تو لینا پڑے گا۔جس کے لیے قوم بظاہر تیار ہے لیکن عمران خان کے گرد پرانے اور آزمائے ہوئے سیاست دانوں کے جمع ہونے سے عمران خان کی شخصیت بھی کچھ قابل اعتبار نہیں لگتی۔اورقوم کی سمجھ میں نہیں آرہاکہ عمران خان آج کل کیا بانٹ رہے ہیں جو ہر کوئی لائن میں لگ گیا ہے ۔عمران خان کوسیاست میں آئے 15سے16 سال کاعرصہ گزر چکا ہے ان کااندازے سیاست شروع سے ہی یہی تھا جو آج ہے اور ان کی شخصیت بھی ایسی ہی تھی اور یہ جو لوگ آج تحریک انصاف میںاپنے جگہ بنانے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں یہ سارے بھی یہیں تھے۔پچھلے 15سال سے ان سب کو کیوں خیال نیں آیا کہ عمران ایک سچا انسان ہے وہ جوکہتا کرتا بھی وہی ہے ؟کیوں ان سب کو عمران خان کی ایمانداری،سچائی ،نیک نیتی اور حب الوطنی  آج سے پہلے کبھی نظر نہیں آئی۔ اور آج یہ لوگ جوق درجوق تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں؟ تحریک انصاف کے نظریاتی ورکر اور ووٹر ان لوٹوں اورلفافوں کو تحریک انصاف میں آتے دیکھ کربہت پریشان ہیں ۔ان کو لگتا ہے جیسے عمران خان کو ہائی جیک کرلیا گیا ہے اور اب تحریک انصاف بھی باقی سیاسی پارٹیوں کی طرح صرف اقتدار کی سیاست کرے گی ۔لیکن عمران خان یہ کہتے ہیں کہ جب وہ پارٹی ٹکٹ دیں گے تودودھ کادودھ اور پانی کا پانی کردیں گے ۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ دودھ کا دودھ تو وہ تب ہ کرپائیں گے جب ان کے پاس تھوڑا بہت دودھ موجود ہو گا اگر وہ سارا پانی ہی اکھٹا کرلیں گے تو پھر دودھ کہاں سے نکالیں گے ۔عمران خان اگر اسی طرح سے ہر آنے والے کوتحریک انصاف میں شامل کرتے رہے تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ عمران خان تحریک انصاف کے میاں اظہر بن جائیں او رتحریک انصاف تو ٹھاٹھ سے سیاست کرئے اور عمران خان تنہائی میں گایا کریں کہ( اب تک تو جو بھی دوست ملے بے وفا ملے )خیر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ عمران خان دودھ کادودھ کریں گے یا خود پانی وپانی ہوتے ہیں ۔عمران خان کچھ بھی کہیں عوام ان آزمائے ہوئے لوگوں کو دوبارہ موقعہ دینے کے موڈ میں نہیں لگتی ۔عمران خان کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک میں عوام کا سونامی لے آئے ہیں لیکن تحریک انصاف کے مخالفین کہتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت میں اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ ہے لیکن عمران خان کے یہ مخالفین اشاروں سے بات کرتے ہیں کھل کرکسی کا نام نہیںلیتے ۔جمہوری حکمرانوںکو تو عام سے عام آدمی بھی تنقید کا نشانہ بنا لیتا ہے مگر  اسٹبلیشمنٹ والوں کا نام کوئی نہیں لیتا جس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کی مشہور بے باک اور نڈروکیل عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ ان کا نام لینے والا ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ؟ اگر پاکستان کے سیاست دان اتنے بے بس ہیں کہ وہ جن کو ملک کی تباہی کا ذمہ دار کہتے ہیں ان کا نام نہیں لے سکتے تو میرے خیال میں ایسے بزدل لوگوں کو ملک پر حکمرانی کرنے کا کوئی حق نہیں ۔
ملک چلانا تو دور کی بات ہے ایسے لوگوں کوتو گدھاگاڑی چلانے کا حق نہیں ہے۔(میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ایسے بزدل حکمرانوں سے ہماری جان خلاصی کرے) تحریک انصاف کے مخالفین جوبھی کہیں ان کی اپنی مرضی ہے لیکن میرے خیال میں عمران خان کی عوامی حلقوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ عوام کے پاس اب اور کوئی چوائس نہیں ہے۔عوام باقی سب کو آزماچکی ہے ۔اور مخدوم جاوید ہاشمی کے تحریک انصاف میں شامل ہونے سے بھی تحریک انصاف کو بہت زیادہ تقویت ملی ہے۔ جاوید ہاشمی جیسے لوگ کسی بھی پارٹی کا بڑا سرمایہ ہوتے ہیں ۔جاوید ہاشمی قومی سطح کے سیاست دان ہیں ان کے تحریک انصاف میں شامل ہونے سے جہاں مسلم لیگ ن کو بھاری نقصان ہوا وہیں تحریک انصاف کوبہت بڑا فائدہ ہوا۔یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ عمران خان ،جاویدہاشمی کوکس قدر مفید طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔لیکن اب مسلم لیگ ن کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ مستقبل میں اس قسم کے نقصانات سے کیسے بچاجاسکتا ہے ۔جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف نے مجھے روکا ہی نہیں درمیانے درجے کے مسلم لیگی رہنما مجھے مناتے رہے ۔ان کا یہ کہنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر میاں نوازشریف ان کو روکنے کی کوشش کرتے تو شائد وہ رک جاتے ۔جاوید ہاشمی صاحب کی اب تک کی گفتگو پر غور سے سوچا جائے تومحسوس ہوتا ہے کہ وہ میاں نوازشریف سے ناراض تھے ۔اور اگر یہ سچ ہے تو پھرجاویدہاشمی کومنانے کی کوشش بھی میاں نوازشریف کوہی کرنی چاہیے تھی ۔مگر میاں نوازشریف کا کہنا ہے کہ جاوید ہاشمی بتا کرجاتے تو اچھا ہوتا۔ یہاں اگر یہ کہا جائے کہ اس نے روکا بھی نہیں اور میں ٹھہرا بھی نہیں ۔تو بڑا فٹ لگے گا۔ حالات واقعات کو دیکھیں تولگتا تو نہیں کہ میاں نوازشریف کو جاوید ہاشمی کی ناراضگی کاعلم نہیں تھا ۔میاں نوازشریف نے جاوید ہاشمی کو کیوں نہیں روکا یہ تو وہ ہی بہتر جانتے ہیں لیکن اگرجاوید ہاشمی کی اب تک کی گفتگوکا بغور جائزہ لیا جاے تو محسوس ہوتا ہے ۔جیسے جاوید ہاشمی صاحب کو میاں نوازشریف سے کوئی بہت بڑااختلاف نہیں ہے اور وہ میاں نوازشریف کو ملک دشمن نہیں سمجھتے  اور جس طرح شاہ محمود قریشی نے پیپلزپارٹی کوچھوڑتے ہی پیپلزپارٹی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاوید ہاشمی نے ایسا نہیں کیا جو بہت ہی اچھی بات ہے اور جاوید ہاشمی نے ایسا کر کے ایک اچھی رویات ڈالی ہے۔تحریر : امتیاز علی شاکر