طاقت کا قانون

Power Law

Power Law

گزشتہ ہفتے مجھے شہر سے باہر جانے کا اتفاق ہوا۔ رہائش سے لاری اڈے تک پہنچنے کے لئے چنگ چی کا سہارا لیا۔ رکشہ ڈرائیور اور ایک سواری کی جان پہچان تھی۔ وہ دونوں کسی واقعے پر تبادلہ خیال کر رہے تھے جو غالباً ان کے محلے میں پیش آیا۔ ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے با اثر شخص نے اپنے غنڈوں کی مدد سے ایک غریب دوکاندار کو بری طرح مارا پیٹا اور پولیس اہلکار چند فٹ کے فاصلے پر اپنی موبائل میں نگاہیں موندے بیٹھے رہے۔

ان دونوں کی گفتگو سے مجھے جو سمجھ آئی وہ یہ کہ اس بے چارے کا قصور یہ تھا کہ اس نے ان سیاسی بائو کا پرانا بینربطور میز پوش استعمال کیا تھا۔ رکشہ میں سوار ایک شخص اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے رکشہ ڈرائیور سے یوں مخاطب ہوا ۔ “تمہارا رکشہ اگر پارکنگ کے لئے مختص جگہ میں بھی کھڑا ہو  تب بھی تمہارے اس عمل پر تین سو تیرہ دفعات لاگو کر دی جائیں گی اور اگر ایک مہنگی کار والا سڑک کے درمیان بھی پارک کر دے تو اسے نہ صرف سلیوٹ کیا جائے گا بلکہ نہایت ادب سے گاڑی ایک طرف کرنے کی گزارش کی جائے گی۔

یہ بظاہر ناخواندہ نظر آنے والے دونوں اشخاص دراصل پاکستان میں موجود جاگیردارانہ اور معاشرتی نظام پر گہری نظر رکھنے والے ثابت ہوئے۔ان کی گفتگو نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیاکہ کیا صدر پاکستان کی طرح ارض پاک پر حکمرانی کرنے والے چند خاندان کو بھی استثنیٰ حاصل ہے۔کیا جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے اس کے سارے کام جائز ہیں۔ کیا قانون اس پر لاگو نہیں ہوتا۔

کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے امراء کے خلاف اقدامات کرنے سے قاصر ہیں۔ کیا غریب بے قصور مارا جاتا ہے۔ کیا امیر قصوروار ہو بھی تو کوئی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔بہت شرمندگی کے ساتھ کہنا پڑ رہا کہ ہاں! ہماری بد قسمتی کہ ایسی ریاست جس کا مقتدر اعلیٰ ذات الٰہی ہے اور جس کی بنیاد لاالہ اللہ ہے۔قائد اعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان تو اس سے بہت مختلف ہے۔

یہاں جس کا جب دل چاہے راہ چلتے نوجوان کو گاڑی تلے کچل ڈالے اس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا کیو نکہ اس کے پاس پیسہ ہے۔ قانون کی “بہترین حکمرانی” کا عالم یہ ہے کہ آن کی آن میں گھر کے واحد کفیل کی زندگی کا چراغ گل کر کے اس کے خاندان کو دکھوں کے بے رحم سمندر کے حوالے کر دیا جاتا ہے، خون پسینے کی کمائی سے ایک پل میں محروم کر دیا جاتا ہے۔

Shahrukh Jatoi

Shahrukh Jatoi

مزید یہ کہ کوئی امیر زادہ جب چاہے کسی کے بیٹے کو نا حق قتل کر کے با آسانی دبئی فرارہو سکتا ہے، کسی ادارے کا اعلیٰ افسر کروڑوں کا غبن کر کے اس ملک سے بیوی بچوں سمیت بیرون ملک فرار ہو سکتا ہے، اس ملک کے لاچار عوام کے ٹیکس کو اپنی وراثت سمجھنے والا بوریاں بھر بھر کے سوئس بینک منتقل کرسکتا ہے، بوڑھے والدین کا واحد سہارا اگر کسی بڑے آدمی کو حق پہ قائم رہتے ہوئے بے نقاب کرنے کا سوچتا ہے تو اس کے قتل کو خودکشی کہہ کر معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔ ان سب کو کوئی پوچھنے والا نہیں کیو نکہ وہ ٹھہرے امیراور ستم یہ کہ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔

جب تک قانون کے مساوی اطلاق کو یقینی نہیں بنایا جاتا، ترقی کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لئے خواب غفلت سے بیدار ہونا ہو گا اور اس کرپٹ نظام کے خلاف علم جہاد بلند کرنا ہو گا۔نوجوانوں کو  تعیشات سے نکل کر تعلیمی میدان میں اپنی ْْْْصلاحیتوں کے جوہر دکھانا ہوں گے اور ملک و ملت کی بہتری وترقی کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا ہو گی۔ اسی میں ہماری بقا کا راز پنہاں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حالات پر رحم فرمائے اور ہمیں راہ راست پہ چلنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے ۔آمین

Tajamal Mehmood

Tajamal Mehmood

تحریر:   تجمل محمود جنجوعہ
0301-3920428