طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح اسباب و محرکات اور تدارک

Divorce

Divorce

زیادہ عرصے پرانی بات نہیں اگر ہم دوتین عشرے پیچھے کی طرف جائیں تو ہمارے معاشرے میں لفظ”طلاق”ایک گالی سمجھا جاتا تھا،مگر اب یہ بات قصہ پارینہ بن چکی ہے، پچھلی ایک دہائی سے پاکستان میں طلاق کی شرح میں ناقابل ِ یقین حد تک اضافہ ہوا ہے،صرف پچھلے چار برسوں کے دوران کراچی شہر کی 11فیملی کورٹس میں طلاق اور خلع کے کم و بیش 75ہزار کیسیز رجسٹرڈ ہوئے،ایک مقامی روزنامے سے حاصل شدہ اعدادوشمار کہتے ہیں کہ اِس وقت کراچی میں قائم فیملی کورٹس میں طلاق اور خلع کے یومیہ 45 کیس درج ہوتے ہیں، جبکہ جنوری 2005سے جنوری 2008کے دوران فیملی کورٹس میں طلاق و خلع کے 64ہزار 800کیس درج ہوئے تھے،مگر 2008کے بعد اِس تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا اور کراچی کی فیملی کورٹس میں جنوری 2008سے لے کر رواں برس 2012کے دوران طلاق و خلع کے 72ہزار 900کیس درج ہوئے،اِن میں سب سے زیادہ شرح کراچی کے ضلع شرقی میںرہی،اسی طرح شہری حکومت کے ماتحت کراچی کے 18ٹاونز کی مصالحتی کمیٹیوں میں 2008سے اگست 2012کے دوران طلاق و خلع کے 2ہزار 154کیسیز رجسٹرڈ ہوئے، جس میں گلشن اقبال ٹاؤن سرفہرست رہا،اِس طرح کراچی کی تمام فیملی کورٹس اور شہری حکومت کی مصالحتی کمیٹیوںمیں طلاق و خلع کے رجسٹرڈ ہونے والے کیسیز کا مجموعہ 75ہزار 54بنتا ہے،جس کی سالانہ اوسط 18764 نکلتی ہے،جبکہ اِس میں 20فیصد کیسیز ایسے ہیں جو رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتے اور معاملہ دو خاندانوں کے درمیان ہی رہتا ہے،واضح رہے کہ یہ اعدادوشمار صرف پاکستان کے شہر کراچی کے ہیں،جس سے آپ پورے ملک کی مجموعی صورتحال کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ سابقہ اور موجودہ حکومتوں کی آزادی ٔنسواں اور روشن خیالی مہم نے بھی اِس شرح میں اضافہ کیا ہے ،عورتوں کی آزادی اوراُن کیلئے انصاف کی فوری فراہمی کے خلاف کوئی ذی شعور نہیں ہوسکتا،بشرطیکہ یہ اسلامی حدود اور شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ہو، مگریہ مہم پاکستان کے مسلم معاشرہ کے مشترکہ خاندانی نظام کوتباہ کرنے کی خوفناک سازش ہے تاکہ مغرب کی طرح یہاں بھی مادرپدر آزاد معاشرہ قائم ہوجائے اورعورت چراغ خانہ کی بجائے شمع محفل اوربازار کی جنس بن جائے ، یہی وجہ ہے کہ اِس وقت ہمارے ملک میں محبت کی شادیوں کے حق میں فضاہموار کی جارہی ہے، مشترکہ خاندانی نظام تباہ کرنے کیلئے فیملی کورٹس ایکٹ اکتوبر 2005 دفعہ (4) سیکشن 10کے تحت طلاق کاعمل آسان ترکردیاگیا ہے، اس کے برخلاف انسانی اورخاندانی معاملات سے تعلق رکھنے والے قوانین اتنے پیچیدہ ہیں کہ اُن میں فوری انصاف کاحصول مشکل ترین نہیں تو مشکل ترضرورہے ،جبکہ طلاق کے معاملات کوروشن خیالی کے دورمیں انتہائی آسان بنادیاگیا ہے اورعائلی قوانین میں اِن تبدیلیوں کوعورتوں کی آزادی اورفوری انصاف قرار دیا گیا ہے،چنانچہ آزادی اورفوری انصاف کی مہم کا نتیجہ یہ ہے کہ روزانہ سینکڑوں خواتین ازدواجی زندگی کے بندھن سے آزاد ہورہی ہیں اور طلاق جیسا ناپسندیدہ عمل اب ہمارے ہاں آسان ترین کام بنتا جا رہا ہے، خواتین اسے حق سمجھ کر استعمال کررہی ہیں،یہ بھی سابقہ آمرانہ دور میںکی جانے والی ترامیم کا نتیجہ ہے کہ عدالتیں خلع اورطلاق کی ڈگریاں ریوڑیوں کی طرح بانٹ رہی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ اعتماد اور بھروسے کی بنیاد پر قائم رہتا ہے جب کبھی دونوں میں اعتماد اور بھروسے کی بنیادیں ہلتی ہیں تو اِس رشتے کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہیں اور یہ رشتہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے، اگر دونوں میں اعتماد اور بھروسے کی بنیادیں مضبوط رہیں گی تو یہ رشتہ بھی مضبوط تر ہوتا جائے گا اور کبھی زوال پذیر نہیں ہوگا،عدم برداشت بھی طلاق کا ایک اہم سبب ہے اگر دونوں فریق آپس میں برداشت اور تحمل سے کام لیں اور ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزرکریں تو اِس مقدس رشتے کو قائم رکھنا آسان رہتا ہے، چونکہ ہماری معاشرتی اقدار میں شادی ایک سمجھوتہ ہے،جو لوگ اپنے شریک حیات سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور گھریلو وزندگی کے دیگر اُمور میں باہمی مشاورت اور رضامندی سے کام لیتے ہیں، ایک دوسرے کی معمولی غلطیوں سے درگزر کرتے ہیں ، اُن کی شادی قائم رہتی ہے اور جو لوگ سمجھوتہ نہیں کرپاتے اُن کا یہ مقدس رشتہ ٹوٹ جاتا ہے،اگر ہم پاکستان میں طلاق کے اِس بڑھتے ہوئے رحجان کی وجوہات کا ذکر کریں تو ہر ہونے والی طلاق کے پیچھے ایک الگ وجہ اور الگ کہانی ملے گی،مگرطلاق و خلع کے کیسیز کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ دو شادی شدہ افراد میں علیحدگی کا سبب بننے والی بنیادی وجوہات میں گھریلو ناچاقی سرفہرست ہے۔

قربانی دینے کے عزم میں کمی،زبردستی شادی،مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت،سماجی اسٹیٹس ،حرص و ہوس،بیوی یا شوہر کا شکی مزاج ہونا،دوسری یا جلد بازی میں محبت کی شادی،انڈین ٹی وی ڈراموں اور فلموں کے اثرات، معاشی مسائل،شوہر کا نشہ کرنا،وٹہ سٹہ یاخاندان سے باہر شادی کرنا اور نام نہاد این جی اوز کی جانب سے خواتین کی آگاہی(جسے بغاوت پر اُکسانا قرار دینا زیادہ مناسب ہے)کیلئے چلائے جانے والے پروگرام بھی طلاق و خلع کی شرح میں تیزی سے اضافے کا سبب بن رہے ہیں،طلاق خانگی زندگی کی تباہی کے ساتھ سب سے زیادہ اولاد کو متاثر کرتی ہے اور طلاق کی آگ کی لپیٹ میںدو خاندان بری طرح جلتے اور جھلستے رہتے ہیں،طلاق جیسا انتہائی قدم اٹھانے والے لمحے بھر کو بھی اِس نکتے پر غور نہیں کرتے، نتیجتاًاُن کے بچوں کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے اور وہ کبھی نہ ختم ہونے والی احساس کمتری اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں۔

divorce

divorce

نفسیاتی اور دماغی امراض کے ہسپتالوں میں کئے گئے سروے کے مطابق اِن بیماریوں میں مبتلا ہونے والے مریضوں میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جوطلاق کی وجہ سے بچپن میں والدین کی شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں،یہ محرومی بچوں کو جرائم کی طرف راغب کرنے کاسبب بنتی ہے، اکثراوقات طلاق خودکشی اور قتل کا سبب بھی بن جاتی ہے،جن والدین کے درمیان طلاق واقع ہوجاتی ہے، اُن کے بچے معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے،وہ عدم توازن اور عدم تحفظ کاشکار ہوجاتے ہیں، اُن کی تعلیمی اورمعاشرتی کارکردگی متاثرہوتی ہے اور اُن میں اعتماد اور خودداری کافقدان رہتاہے جو معاشرے کو ایک مفید اورکارآمد شہری سے محروم کردیتا ہے۔چونکہ ایک مسلم خاندان کی ابتدائ’ ‘نکاح ” سے ہوتی ہے، اِس لیے اسلام میںنکاح ایک ایسا سماجی معاہدہ (Social Contract) ہے، جسے اسلام نے تقدیس عطا کرکے عبادت کا درجہ دیا ہے اوراسلام یہ چاہتا ہے کہ یہ رشتہ تاحیات برقرار رہے،جس کیلئے اسلام نے ایسے اقدامات تجویزکئے ہیں جو اِس مقدس رشتے کی بقاء کی ضمانت دیتے ہیں اور اسے دوام بخشتے ہیں، یہ رشتہ اِس قدر عظیم ہے کہ اِس میں منسلک ہونے کے بعد ایک جوڑا جس میں اِس سے پہلے کوئی شناسائی نہیں ہوتی ، ایک دوسرے سے بے پناہ پیار ومحبت کا اظہارکرتا اور ہر خوشی وغمی میں زندگی بھر کا ساتھی بن جاتاہے، اِن کا باہمی تعلق اِس قدر لطیف ہے کہ قرآن مجید نے دونوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے،تاہم بعض اوقات یہ عظیم رشتہ مکدر ہو جاتاہے اور اِس میں دراڑیں پڑجاتی ہیں، اگر بشری کمزوریوں اور سماجی حالات کی وجہ سے اِس رشتے کو برقرار رکھنا مشکل ہوجائے تو شریعت مطہرہ نے طلاق کو انتہائی ناپسندہ عمل قرار دیتے ہوئے ایکدوسرے سے جدا ہونے کا راستہ رکھا ہے، اسلام اجازت دیتا ہے کہ ”طلاق ” کے ایک متعین طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں کہ شاید کہ اِس جدائی کے بعد اللہ کریم اُن کیلئے خوشگوار زندگی کا کوئی اور سبب بنادے،اِس کا مطلب یہ ہے کہ ” طلاق ‘ ‘نہایت ہی مجبوری کی حالت میں دی جا سکتی ہے، لیکن آج جب ہم اپنے معاشرے میں ”طلاق ” کے بڑھتے ہوئے واقعات دیکھتے ہیں اور اِن کے اعداد وشمار کا جائزہ لیتے ہیں توایک خطرناک تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔

بدقسمتی سے مغربی تہذیب کے اثرات اور مادر پدر آزاد معاشرے کی اندھی تقلید کی وجہ سے ہمارے ہاں ماضی کے مقابلے میں طلاق کی شرح خطرناک حدتک پہنچ کر ایک سماجی مسئلہ بن چکی ہے جو ہمارے اسلامی معاشرے میں موجود آئیڈیل خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے،لہٰذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اسلام کے قانونِ طلاق کو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کرنے کی سعی کی ہے تاکہ اِس کا ناجائز استعمال روکا جا سکے اور فرد ،خاندان اور معاشرے کو بہت سے سماجی مسائل اور الجھنوں سے بچایا جاسکے،اِس کام کیلئے معاشرے کے حساس اور ذمہ دار طبقات اور علماء کو خصوصی توجہ دینے اور اِس کے اسباب وعلل کا جائزہ لے کر تدارک کرنے کی شدید ضرورت ہے،یاد رکھیں طلاق ایک ناپسندیدہ فعل ہے جس معاشرے میں طلاق کی کثرت ہو جائے تو سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ معاشرہ اپنی فطری زندگی کے راستے سے بھٹک گیا ہے۔

تحریر : محمد احمد ترازی