عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا

marne ki tadbeer

marne ki tadbeer

عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا

جاتا ہوں داغ حسرت ہستی لیے ہوئے
ہوں شمع کشتہ، درخور محفل نہیں رہا

مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایان دست و بازوئے قاتل نہیں رہا

بروئے شش جہت در آئینہ باز ہے
یاں امتیاز ناقص وہ کامل نہیں رہا

وا کر دیے ہیں شوق نے بند نقاب حسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

دل سے ہو اے کشت وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل سوائے حسرت نہیں رہا

بیداد عشق سے نہیں ڈرتا، مگر اسد
جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا

م
غالب