عمرقید سزائیں: کشمیر میں جیل بھرو تحریک

Occupied Kashmir

Occupied Kashmir

بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں انیس قیدیوں کو بھارتی عدالتوں کی طرف سے عمرقید کی سزا سنانے پر علیحدگی پسندوں اور انسانی حقوق کے اداروں نے جیل بھرو تحریک شروع کر دی ہے۔

جمعے کی نماز کے بعد چالیس سے زائد کارکن بڑے بینر اٹھائے ہوئے وادی کے تجارتی مرکز لال چوک میں نمودار ہوئے جس کے بعد وہاں پر موجود پولیس نے انھیں گرفتار کر لیا۔

جیل بھرو تحریک کا اعلان لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یسین ملک نے کیا ہے۔ لاپتا افراد کے والدین کی تنظیم اے پی ڈی پی کے ایک دھڑے نے اس تحریک کی حمایت کی ہے۔

گرفتاری سے قبل میڈیا سے گفتگو کے دوران یسین ملک نے بتایا کہ پچھلے بائیس سال کے دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بیشتر کو برسوں کی قید کے بعد رہا کیا گیا اور سینکڑوں ایسے ہیں جنھیں عدالتی احکامات کے باوجود رہا نہیں کیا گیا۔

یسین ملک کا کہنا تھا کہ آج اچانک بھارتی عدالتیں ان لوگوں کو سزائیں سنانے پر آمادہ ہیں۔ یہ کوئی قانونی ضرورت نہیں بلکہ سیاسی انتقام ہے اور افسوس ہے کہ بھارتی عدلیہ اس سیاسی انتقام کا حصہ بن رہی ہیں۔

خواتین کی تنظیم دخترانِ ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی کے خاوند محمد قاسم فکتو پچھلے بیس سال سے قید ہیں۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر قاسم فکتو، محمد ایوب ڈار اور غلام قادر بٹ سمیت بیس کشمیری قیدیوں کا قانونی دفاع گذشتہ ہفتے اس وقت خطرے میں پڑگیا تھا جب ایک عدالت نے عمرقید کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس سزا کا مطلب حبس تادمِ مرگ یعنی مرتے دم تک جیل میں رہنا ہے۔

لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یسین ملک اور ان کے ساتھیوں نے گذشتہ ہفتے عدالتی فیصلوں کے خلاف بھوک ہڑتال کی۔

محمد یسین ملک نے عدالتی فیصلوں اور علیحدگی پسندوں کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندیوں کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی برسوں تک بھارت کی سول سوسائٹی کے رہنما ہمیں نصیحت کرتے رہے کہ تشدد ترک کرو۔ جب کشمیریوں نے غیرمسلح احتجاج کیا تو بھارتی فورسز نے دو سو لوگوں کو گولیاں مار کر قتل کردیا۔ اب جن لوگوں نے پندرہ یا بیس برس کی قید کاٹی ہے انھیں کہا جارہا ہے کہ مرتے دم تک جیل میں رہو۔ آج کہاں ہے بھارت کی سول سوسائٹی؟ کیا یہاں ہونے والے مظالم میں اس سول سوسائٹی کا مفاد خصوصی ہے؟