معجزہ ہمارے عہد میں بھی ہو گیا ہے .. غزل

night and water

night and water

معجزہ ہمارے عہد میں بھی ہو گیا ہے
وہ اپنا عکس ہمارے آئینوں میں بو گیا ہے

وہی سمجھے گی ماں،میرے کرب کی کہانی
جس کا لاڈلا بچہ اچانک کہیں کھو گیا ہے

نا کوئی مطرب و رباب نا کوئی راگ درباری
فن کار ہمارے شہر کا شائد سو گیا ہے

پانی سے بھرا تالاب دیکھ کر سمجے گا کون
پچھلی رات کوئی مہتاب لب جو رو گیا ہے

فصل گل کا استعارہ اسے اب کون سمجھائے
وہ اپنے غم ہمارے میکدے میں بو گیا ہے

حدیث دل کی لوگو یہی تفسیر کافی ہے
نہیں ہونا تھا جو وہی اب ہو گیا ہے

یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے انور جمال
میرے چہرے میں اس کا چہرہ کھو گیا ہے

شاعر : انور جمال فاروقی اولڈ ھم