غماں دی ماری اِک دُکھیاری

Najeem Shah

Najeem Shah

دُنیا سے رخصت ہونے کے بعد ”مادرِ جمہوریت ”کا خطاب اور ”نشانِ امتیاز ”کا اعزاز پانے والی بیگم نصرت بھٹو کی وفات سے آج نہ صرف بھٹو کا گھر خالی اور ویران ہے بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک باب بھی ختم ہو گیا ہے۔ بیگم نصرت بھٹو اب تاریخ کا حصہ بن گئیں جبکہ گڑھی خدا بخش کا قبرستان ایک اور بھٹو سے آباد ہو گیا ہے۔مرحومہ بیگم نصرت بھٹو کی زندگی اس اعتبار سے رنج و غم سے بھری ہوئی تھی کہ اُنہوں نے اپنے شوہر کی پھانسی، دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو قتل ہوتے دیکھا اور اب ان کے بچوں میں سے صرف ایک بیٹی صنم بھٹو زندہ رہ گئی ہیں۔ بیگم نصرت بھٹو ایک عظیم خاتون اور قومی اثاثہ تھیں۔ اپنے شوہر اور اولاد کی غیر فطری موت دیکھنے والی یہ عظیم خاتون بار بار مر کر بھی زندہ رہیں لیکن بالآخرموت سے ہار گئیں۔ یوں بیگم نصرت بھٹو کی خوشیاں اور غموں کی کئی داستانوں پر مشتمل بیاسی سالہ زندگی کا سفر اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ ایران کے شہر اصفہان سے تعلق رکھنے والی نصرت بھٹو کی شہرت ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری بیوی کے بطور ہے۔ ان کی اولاد بینظیر بھٹو، مرتضےٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو اور صنم بھٹو ہیں۔ وہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیگم ہونے کے ناطے خاتونِ اول جبکہ اپنے شوہر کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن رہیں اور بعد ازاں پارٹی کی قیادت اپنی بیٹی بینظیر بھٹوکے سپرد کر دی۔ شوہر کی وفات کے بعد میدانِ سیاست میں اُترنے والی بیگم نصرت بھٹو دو بار قومی اسمبلی کی رُکن منتخب ہوئیں اور بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں وفاقی کابینہ میں سینئر وزیر کے عہدے پر فائز رہیں۔بیگم نصرت بھٹو نے 1993ء کے انتخابات کے دوران لاڑکانہ میں اپنے بیٹے میر مرتضےٰ بھٹو کی انتخابی مہم چلائی اور پھر بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں بیٹے مرتضےٰ بھٹو کی پولیس مقابلے میں مبینہ ہلاکت کے بعد بیٹی بینظیر بھٹو سے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔اُس وقت سے بھٹو خاندان دو حصوں میں تقسیم ہے اور یہ اختلافات مرحومہ نصرت بھٹو کی وفات کے بعد بھی دیکھنے میں آئے۔ بیگم نصرت بھٹو کی وفات سے قبل ہی شہید بھٹو گروپ کی طرف سے یہ الزامات عائد کیئے جاتے رہے کہ ایک سازش کے تحت نہ صرف بیگم بھٹو کو یرغمال بنایا گیا ہے بلکہ اُن کی پارٹی پر بھی سامراجوں نے قبضہ جما رکھا ہے جس سے بھٹو ازم کے حامی نظریاتی ارکان میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ مرحومہ نصرت بھٹو جب حیات تھیں اُس وقت اُن کی پوتی فاطمہ بھٹو اور پوتے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے اپنے خط کے ذریعے یہ اپیل بھی کر چکے ہیں کہ وہ اُن کی دادی بیگم نصرت بھٹو کو دبئی سے واپس پاکستان اپنے گھر میں لانے کیلئے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کریں۔ پوتے اور پوتی نے اپنے خط میں مؤقف اختیار کیا کہ اُن کے والد میر مرتضےٰ بھٹو کے قتل کے بعد اُن کی پھوپھی بینظیر بھٹو ہماری دادی کو بظاہر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کروانے کیلئے ساتھ لے گئی تھیں اور پھر اُنہیں دبئی میں زرداریوں اور گھریلو ملازمین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو کی اولاد میں سے کوئی فرد ان کے پاس موجود نہیں ہے جبکہ ان کی بیٹی صنم بھٹو اور نواسے لندن میں مقیم ہیں۔ وہ شدید علیل ہیں اور اُنہیں دوائیوں کیساتھ جذباتی اور نفسیاتی توجہ کی ضرورت ہے لہٰذا اُنہیں کراچی میں اپنے اس گھر میں رہنے کی اجازت دی جائے جہاں اُنہوں نے اپنے شوہر ذوالفقار علی بھٹو اور بیٹے میر مرتضےٰ بھٹو کے ساتھ ماضی میں خوشگوار دن گزارے ہیں۔ فاطمہ بھٹو اور اُن کے بھائی کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھا گیا خط میڈیا کو بھی جاری کیا گیا۔ اس خط میں دونوں نے یہ بھی لکھا کہ انیس سو چھیانوے کے بعد اُن کی اپنی دادی سے صرف ایک بار مختصر ملاقات کروائی گئی اور پھر کبھی اُن سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔یہ اختلافات بیگم نصرت بھٹو کی وفات کے بعد بھی جاری ہیں۔ غنویٰ بھٹو کا یہ مطالبہ رہا کہ قانونی وارث ہم ہیں لہٰذا روایت اور اصول کے مطابق مرحومہ بیگم نصرت بھٹو کا جسدِ خاکی المرتضیٰ ہائوس سے نکلنا چاہئے۔ اُن کا یہ مطالبہ تسلیم نہ ہونے پر میر مرتضیٰ بھٹو کی اہلیہ غنویٰ بھٹو اور فاطمہ بھٹو نے گڑھی خدا بخش میں ہونیوالی نماز جنازہ میں شرکت اور مرحومہ کا آخری دیدار کرنے سے انکار کر دیا البتہ تدفین کے بعد اُن کی قبر پر حاضری دی اور فاتحہ پڑھی۔ شہید بھٹو گروپ کا ساتھ دیتے ہوئے سندھ نیشنل فرنٹ کے سربراہ ممتاز بھٹو نے بھی نصرت بھٹو کی نماز جنازہ میں شرکت سے انکار کیا اور یہ الزام عائد کیا کہ بیگم نصرت بھٹو کو علاج کے بہانے باہر لیجایا گیا اور ان کی تیمارداری کی بھی کسی کو اجازت نہ دی گئی لہٰذا یہ شک پڑتا ہے کہ انہیں قتل کیا گیا اور ہم سوچ رہے ہیں کہ اس سلسلے میں ہائی جوڈیشل انکواری ہونی چاہئے۔ بھٹو خاندان کی دو حصوں میں تقسیم کی بناء پر مرحومہ کی میت کے ہمراہ بیٹی صنم بھٹو، نواسہ بلاول بھٹو، نواسیاں بختاور اور آصفہ موجود تھیں جبکہ مرحومہ کی بہو غنویٰ بھٹو، پوتی فاطمہ بھٹو، پوتے ذوالفقار علی بھٹو اور ممتاز بھٹو تدفین کے وقت موجود نہیں تھے۔بھٹو کا حقیقی وارث کون ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ ماضی میں جس طرح بینظیر بھٹو کی وفات پر اختلافات کے باوجود غنویٰ بھٹو اُن کے جنازے میں شرکت کرنے چلی گئی تھیں اس بار بھی ایسا ہی کر لیتیں کیونکہ بیگم نصرت بھٹو صرف اُن کی ہی نہیں بلکہ صدر آصف علی زرداری کی بھی ساس تھیں البتہ اسکے باوجود غنویٰ بھٹو اور ممتاز بھٹو کی اس بات سے مجھے کوئی اختلاف نہیں کہ مرحومہ کا جسدِ خاکی المرتضیٰ ہائوس سے اٹھنا چاہئے تھا۔ بیگم نصرت بھٹو ملکی سیاسی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش کردار تھیں جس نے آزمائش کی ہر گھڑی میں صبر و استقامت کا بے مثال مظاہرہ کرکے قید و بند اور تشدد سمیت مصائب کا عزم و ہمت سے سامنا کیا۔ موجودہ حکومت کے دور میں قومی اعزازت اور خطابات کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہا اور ایسے لوگوں کو بھی نوازا گیا جن کا سرے سے کوئی کردار ہی نظر نہیں آتا۔ جمہوریت کی دعویدار حکومت اگر مادرِ جمہوریت کا خطاب اور نشانِ امتیاز کا اعزاز مرحومہ کی زندگی میں ہی عطاء کر دیتی تو اس سے نہ صرف اُن کے دُکھوں کا مداوا ہو جاتا بلکہ بھٹو کی روح کو بھی سکون ملتا۔ویسے بھی جب جمہوریت کی ماں ہی مر گئی ہے ۔۔۔  اب رہ کیا گیا پیچھے۔۔۔تحریر: نجیم شاہ