پیٹرول پھر مہنگا ہو گیا مر گئے مر گئے غریب مر گئے

petrol

petrol

ہمیں یاد ہے کہ وہ آمر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار کا آخری سال تھا جب اِس نے ملک میں انتخابات کرانے اور اپنا اقتدار چھوڑنے کا پکا ارادہ کر لیا تھااور اِسی دوران اِس نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اپنے خلاف کثرت سے ہونے والے تبصروں، تجزیوںاور بحث ومباحثوں کوبندکرانے کے خاطر اِن دونوں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر سخت ترین پابندی لگادی تھی شاید یہ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ ہم اِس صدمے کو برداشت نہ کرسکے اور عارضہ قلب میں مبتلاہو گئے۔

 

اِس کا انکشاف ہمیں ایک روز یوں ہواکہ اچانک ہمارا سانس پھولنے لگا اور ہمارے سینے میں ایک درد اٹھاور ہم اِسی کیفیت میں اپنے قریبی عارضہ قلب کے ایک ماہر ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو انہوں نے چندابتدائی ٹسٹوں کے بعد ہی یہ انکشاف کردیاکہ آپ کے دل میں سوراخ ہے اور ہم دل کی ایک ایسی بیماری میں مبتلاہیں جو اکثر بچوں میں پائی جاتی ہے اور جو عموما بچوں کی پیدائش کے وقت سے ہی اِن میں موجودرہتی ہے اور جواکثر اوقات عمرکے ایک حصے میں پہنچ کر اِس سوراخ کے خود بخود بندہوجانے پر ختم بھی ہوجاتی ہے اور بعض حالتوں میں بچوں کی لڑکپن کی عمر تک پہنچنے کے بعد اِس کوایک آپریشن کے ذریعے بندکردیاجاتاہے مگر ڈاکٹر ہمیں دیکھ کر یوں حیران تھے کہ آپ کو پچپن میں کوئی ایسی تکلیف کیوں نہ ہوئی کہ اِس کا انکشاف پچپن ہی میں ہوجاتا تو اِس کا اس وقت کوئی نہ کوئی علاج کر دیا جاتا تو ہم آج ایک صحت مند انسان ہوتے مگر ڈاکٹر کا یہ کہنا شاید بجاتھا کہ ہمیں یہ تکلیف ساڑھے چار عشرے گزارنے کے بعد اب کیوں ہوئی ہے۔
بہر حال…!بات آئی گئی ہوگئی اور ہم اِن ڈاکٹر صاحب کے مطابق بتائی گئیں ہدایات پرعمل کرتے ہوئے اِس دعااور امید کے ساتھ اپنا وقت گزارتے رہے کہ چلو چند دنوں کی ہی تو بات ہے یہ وقت بھی گزرہی جائے گا اور مشرف جیسے آمر ظلم و فاسق و فاجر حکمران جس نے لکھنے اور بولنے والوں پر پابندی لگادی ہے اورجس کی وجہ سے ہمارے دل پر دباو پڑااور ہمیں یہ پتہ چلاکہ ہمارادل اِس کے ظالمانہ رویوں اور اِس کے آمرانہ پن کی وجہ سے چھلنی ہوگیاہے تو چلو عنقریب اِس سے بھی ہم سمیت قوم کو بھی چھٹکارہ مل ہی جائے گا تو ممکن ہے کہ آئندہ انتخابات میں کسی عوامی اور جمہوری حکومت کو اقتدار ملے تو ملک کے حالات بہترہوں توہمیں بھی دلی سکون نصیب ہواور ہم بھی دل پر پڑنے والے دباوکو کچھ کم کرکے اپنا اور قلم کا رشتہ پھر جوڑ سکیں ۔اور پھر اِس طرح ہم اپنے نئے حکمرانوں کی شان میں اپنے اور ساتھیوں کی طرح قصیدے لکھنے لگیں تو دل تو کچھ تشفی ملے اور ہماری طیبعت بھی بہتر ہو جائے۔
بالآخراللہ اللہ کر کے ملک میں انتخابات بھی ہو گئے اور مشرف جیسے آمر سے بھی قوم کو نجا ت مل گئی اور اِس کے بعد ملک میں روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی موجودہ عوامی حکومت کے حصے میں اقتدار آ گیاہم بھی دوسروں کی طرح خوش تھے کہ ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق ایک صحیح اور عوامی پارٹی کے ہاتھ آگیاہے اور اب برسوں سے مشرف جیسے آمر کے شکنجے میں جکڑے عوام کے دن پھر جائیں گے اور اب ہر غریب کی کھل کر دادرسی کی جائے گی ملک میں مہنگائی کے بے لگام گھوڑے کو لگام دے دی جائے گی، بیروزگاری ختم ہوگی، توانائی اور خوارک کے مصنوعی اور خودساختہ پیداکردہ بحرانوں پر قابو پا لیا جائے گا، ملک میں نئے ترقیاتی منصوبے شروع کئے جائیں گے، کرپشن اور قتل وغارت گری کا گرم ہوتابازار ٹھنڈاکردیاجائے گا اور بہت سے ایسے دلفریب اور دلکش خواب جو کسی بھی عوامی پارٹی کو اقتدار میں آنے کے بعد عوام اکثر دکھاکرتے ہیں ہم نے بھی دیکھ رکھے تھے۔ اور ہم نے بھی نئی حکومت اور اپنے حکمرانوں کی عظمت اور شان میں بڑھ بڑھ کر خوب اور دل کھول کر لکھااور اِن کی قصیدوں سے اخبارات کے صفحات کالے کئے مگر اِس سے کچھ بھی حاصل نہ ہوانہ ملک کی حالت بدلی اورنہ ہی …….کی حالات زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی محسوس ہوئی سب کچھ یوں ہی رہاجیساتھااِس پر ایک ہم ہی کیا پوری قوم ہی مایوس ہو گئی۔
اِس پر آج افسوس کے ساتھ ہمیں بھی قوم کے ساتھ ہم زبان ہوکر یہ کہناپڑرہاہے کہ اِن تما م خوابوںکی تعمیر گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں نہ تو قوم کو ہی مل سکی ہے اور نہ ہی ہم پاسکے ہیں کیوں کہ موجودہ حکمرانوں کی قوم کے لئے پیش کی گئیں مایوس کن کارکردگی کے باعث آج ہمارے دل کا یہ حال ہوگیاہے کہ دورِ مشرف میں ہمارے دل میں پیداہونے ولاوہ سوراخ جو میڈیکل کی اصطلاح میں کبھی اسمال ( ASD-II)تھا اِس حکومت نے اپنے ساڑھے چارسالوں میں جس حساب سے ملک میں مہنگائی ، بیروزگاری،لوٹ مار ، اقرباپروری ،کرپشن ، بجلی اور گیس کے بحرانوں سمیت دیگر مسائل کو پروان چڑھایاہے اِس کیفیت سے دوچار رہنے کی وجہ سے جب ہمارے دل اور دماغ پر مزید بوجھ اور دباو پڑاور ہماری طبیعت بگڑی اور ہم نے اپنے معالج سے رابطہ کیا اور اِس نے ہمارے دوبارہ ٹسٹ کروائے تو معلوم ہواکہ اب ہمارے دل کا سوراخ بھی بڑھ گیاہے یعنی پچھلے دنوں جب ہم نے اپنے دل کے کئی ایک ایکوکروائے تو یہ انکشاف ہواکہ ہمارے دل کا وہ سوراخ جو کبھی ڈاکٹری اصطلاحات میں اسمال ( ASD-II) ہواکرتاتھا اِن دنوں اِس کا سائز23.5mmہو گیا ہے۔

 

اِ س پر ہماراخیال یہ ہے جیساکہ کہنے کو اِس عوام دوست ہماری حکومت نے یکم مارچ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اوگرا کے کہنے پر ایک بار پھر اضافے کا اعلان کردیاہے اور ملک میں مہنگائی کا طوفان برپاکر دیاہے اور اِسی طرح اگست 2011سے 39فیصد بجلی کے فی یونٹ میں فیول ایڈجسمنٹ کے نام پر اضافے کا بھی اپنا فیصلہ کرلیاہے تو ہمیں یہ خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ اب اگر ہم نے اپنے دل کا ایکو کروایاتو اِس کا سائز 25.5 mmہو جائے گا کیوں کہ ہم اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ یا تو اِس عوام دوست حکومت نے ہمارادل اوگراکے پاس گروی رکھ دیاہے یا اوگرانے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کئے جانے والے اضافے کو ہمارے دل سے نتھی کردیاہے یعنی جب بھی ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا تو ہمارے دل میں پائے جانے والے سوراخ کا سائز بھی بڑھ جائے گا اور اگر ایسانہ بھی ہوا تو پھر بھی حکمرانوں کے بے حس رویوں کی وجہ سے ہمارا دل چھلنی ہوتارہے گا کیوں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے ساڑھے اٹھارہ کروڑ عوام کو مہنگائی کی ڈنڈے اور چابک سے ہانکنے والے حکمران بھلا یہ کیا جانے کہ اِن کے اِس فعل شنیع کے باعث عوام کس عذاب سے گزرتے ہیں اِس پر ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ یقینی طور پر جمہوریت کا نعرہ لگانے والے ہمارے اِن حکمرانوں کو اِس کی کوئیپرواہ نہیںہے کہ عوام پر اِن کے اِس ظالمانہ اقدامات کے باعث کتنے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور یہ مہنگائی کی وجہ سے کس عذاب سے دوچار ہیں ملک میں غربت کا گراف بڑھ رہاہے غریب بھوکے مررہے ہیں اور بہت سے میری طرح دل اور عصابی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں جن کے پاس میری طرح دل کا آپریشن کرانے کے لئے رقم تو درکنار دوائیاں خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہیں حکمرانوں کو قوم کی مفلوک الحالی کی کوئی پرواہ نہیں ہے…اگراِنہیں اپنے اِس فعلِ شنیع کے عوض کوئی مطلب ہے تو صرف وہ یہ ہے کہ یہ اپنے اِس عمل کو ہر صورت میں جاری رکھیں بھلے سے عوام کا کچومرنکلتاہے تو نکلتارہے اور عوام کے گلے پر چھری چلتی ہے تو چلتی ہی رہے اوراِس پرعوام کی ایک نہ سنی جائے اور اِن کے آنسووں کی کوئی پرواکئے بغیراِن کاہرکام چلتارہناچاہئے جو و ہ چاہتے ہیں یعنی اِن حکمرانوں کے نزدیک بس اِن کایہ عمل سب سے افضل واعلی ہے اور باقی عوام کی آہ وفغاں بیکار اور فعلِ عبث ہے۔
ایک طرف ملک میں مہنگائی کا اژدھا کھلے عام غریبوں کو کھارہاہے تو دوسری جانب اِس مہنگائی کے اژدھے کی مالکن حکومتی باندی اوگرا جس کے موجودہ کارناموں اور کارکردگی پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ باندی تھی سوبیوی ہوئی اوربیوی تھی سوباندی ہوئییعنی وہ کام جنہیں وزارتِ پیٹرولیم اوراراکین پارلیمنٹ کو کرنے تھے آج اِن کی یہ ذمہ داری اوگرانبھارہی ہے اور وزارتِ پیٹرولیم اوراراکین پارلیمنٹ اپنی بے حسی اور بے بسی کا رونا روتے پھررہے ہیں یہ حکومتی باندی اوگراکی دیدہ دلیری اور کیا بدمعاشی نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے….؟ کہ اِس کا جب جی چاہتاہے یہ حکمرانوں کو الٹے سیدے اور لالچ سے بھر پور خوا ب دکھاکر عوام کے لئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرکے اِن پر مہنگائی کا عذاب نازل کرنے کے سیکڑوں دروازے کھول دیتی ہے اور اپنا کلیجہ ٹھنڈاکرلیتی ہے اور عوام اِس کے اِس دردناک عذاب کے نزول ہونے پر بلبلااٹھتے ہیں جیسے آج مہنگائی کے درد کی شدت سے چیخ پڑے ہیں اور یوںیہ حکمرانوں کے لئے اپنے باندی ہونے کا حق اداکرتے ہوئے بل کھاتی اور اٹھلاتی ہوئی اپنی راہ پر چل پڑتی ہے۔
ایسے میں اوگرا کے عوام دشمن اقدامات کے باعث حکمرانوں کی نظر میں اِس کی کتنی اہمیت ہے آپ اِس کا اندازہ سابق وفاقی وزیر اور موجودہ وزیراعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین کے اِس جملے سے بھی باآسانی لگاسکتے ہیں کہ انہوں نے اوگراسے متعلق بلاکسی حیل حجت کے یہ تک کہہ دیاہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے میں وزارتِ پیٹرولیم کا نہ توکوئی عمل دخل ہے اور نہ ہی اِس کا اِس معاملے میں کوئی کردارنہیںہے اضافے کی سمری تو اوگرابناتی ہے اور وزارتِ خزانہ باہمی صلاح مشوروں سے اِس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اِس اضافے کی ترنت منظوری دینااپنا اولین حق سمجھتی ہے اور پھراِس کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عوام کے لئے پابجولاں بن جاتی ہے یکم مارچ سے اوگرا کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے جو بازگشت پچھلے کئی دنوں سے سنی جارہی تھی آج اوگرا، وزارتِ خزانہ اور صدراور وزیراعظم کی مرضی سے اِسے عملی جامہ پنہادیاگیاہے ہمارے حکمران تو اپنے اِ س عوام دشمن کارنامے پر خوش ہیں مگر ملک کے ساڑھے اٹھارہ کروڑ غریب عوام اِس حکومتی اقدام سے چلااٹھے ہیں اِن کی یہ حالت دیکھ کر حکمران تو خوش ہوں مگر شاید خداکو ہم سمیت ملک کے ساڑھے اٹھار ہ کروڑ عوام کی اِس بے بسی اور مجبوری پر کوئی ترس آجائے تو یہ ہمارے اِن ظالم حکمرانوں کو اپنے گرفت میں لے کر اپناانصاف کردے کیوں کہ اللہ کے سوا کسی میں ہمت نہیں کہ کوئی ہمارے اِن عوام دشمن حکمرانوں ،حکومتی باندی اوگرااور وزارت خزانہ کو قابو میں کرسکے۔

 

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم