نیٹو سپلائی کی بحالی اور ڈرون حملے

nato attack

nato attack

دفاع پاکستان کونسل کے عظیم الشان عوامی اجتماعات میں یقینا قومی مفادات کے تحفظ کے لئے بے لاگ پالیسی کا اظہار ہو رہا ہے۔یہ اجتماعات وطن عزیز کے 18کروڑ عوام کے جذبات و احساسات کے ترجما ن ہیں ۔یہ امریکہ کے مکروہ عزائم اور رویوں کے خلاف ہیں۔یہ بھارت،اسرائیل اور اامریکہ کے اتحاد ثلاثہ کی بد طینیتی اور مذموم عزائم کے خلاف ہیں جنکی ریشہ دوا نیاں ملک میں ابتری اور انارکی کا سبب بن رہی ہیں۔اور یہ ان ممالک کو دوست سمجھنے والے حکمرانو ں کی بے حمیتی ، بے بصیرتی اور نا عا قبت اند یشی کے خلاف ہیں۔ یہی و جہ ہے کہ بے مہار ریاستی قوت بڑی حد تک متزلزل ہو گئی ہے۔

 

مذکورہ کونسل کے انتباہ کے باعث کاسہ لیس حکمران نیٹو سپلائی کا زمینی راستہ کھولنے کے لئے متذبذب و مضطرب ہیں۔وزیر اعظم نیٹو سپلائی کے فیصلے کو پارلیمنٹ سے مشروط کر رہے ہیں۔حالانکہ اسی پارلیمنٹ کی ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے حوالے سے منظور کردہ دو بار کی متفقہ قراردادوں پر عملدرآمد کو ضروری نہیں سمجھا گیا ۔لیکن امریکی اور نیٹوکے مفادات کے لئے پارلیمنٹ کے فیصلے کی اہمیت کا اظہار ہو رہا ہے۔ تاہم وزیر دفاع احمد مختار صاحب نے پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا انسانی ہمدردی کا حیلہ بنا کر نیٹو کی سپلائی کیلئے فضائی راستہ کھول دیا ہے ۔جس پر تبصرہ کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے درست فرمایا کہ یہ بحالی انسانی بنیادوںپر نہیں ہے بلکہ امریکی بنیادوں پر ہے۔کیا یہ افسوس ناک حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں اور بلوچستان میں جن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ مسلمانوں کی زندگیوں کی ہلاکت خیزی کا سبب بن رہے ہیں ہمارے حکمران انہی مسلم دشمنوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تعائون کر رہے ہیں۔

 

مہمند ایجنسی میں سلا لہ کی چیک پوسٹ پر نیٹو کے ہیلی کاپٹروں کا کسی اشتعال کے بغیر حملے میں 24 انتہائی قیمتی زندگیوں کا بہیمانہ اتلاف یقینا ایک دلخراش اور نا قابل فراموش سانحہ تھا۔جس نے پوری قوم کے کو صدمات میں محصور کر دیا تھا ۔جس کے رد عمل میں اگر چہ حکومت نے اپنے وار آن ٹیرر کے ا سٹرٹیجک پاٹنر امریکہ کے اس جارحانہ اقدام کے خلاف سخت موقف اختیار کر تے ہوئے نہ صرف ناٹو فورسز کی سپلائی کے کنٹینر ز روک دیئے تھے اور دس برسوں سے اپنے ہی ملک پر ڈرون حملوں کی سہولت کے لئے دیئے ہوئے شمسی ایر بیس کوخالی کروالیا تھا۔بلکہ افغانستان کی جانب سے ہر قسم کی فضائی مداخلت کو روکنے کے لئے افغان سرحد پر اپنے فضائی دفاعی نظام کو بھی جدید خطوط پر استوار کر دیا تھا۔

 

عسکری قیادت نے بھی ابیٹ آباد جیسے واقعہ پرفوج کی نااہلیت پر پیدا ہونے والی قیاس آرائی کو معدوم کرنے کے لئے پاک افغان سرحد پر تعینات فورسز کو یہ احکامات پہنچا دئے تھے کہ افغانستان کی جانب سے کسی بھی امکانی خطرے کی صورت میں بالائی حکم کا انتظار کئے بغیر فوری کاروائی کی جائے پاک افغان سرحد پر ان سنگین حالات کے تناظر میں ایسے دفاعی اقدامات اچھی حکمت عملی تھی۔ غلام محمد خالد