اولڈ ھم

Frankfurt airport

Frankfurt airport

عزیز النسا کے ساتھ فرینکفرٹ ائر پورٹ کے ٹرانزٹ لاج میں چالیس دہایوں بعد میری اچانک ملاقات ہو گئی برسوں پہلے کی طرح آج بھی ہم دونوں ٹرانزٹ تھے – برسوں پہلے سے مراد کالج کا وہ وقت تھا ، جب ہم دونوں ایک ہی کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے ، ہم دونوں نفسیات سے وابستہ تھے ،وہ نفسیات پڑھنا چاہتی تھی ، میں نفسیات سمجھنا چاہتا تھا – مجھے یاد آیا اس کی ایک بہن اور بھی اسی کالج میں ہم سے ایک سال جونیر تھی – یہ دونوں بہنیں دینا لیلی اور رونا لیلی کے نام سے مشہور تھیں -کسی آسودہ خاندان سے تعلق تھا – دونوں قیمتی لباس زیب تن کرتیں ،بال اس وقت کی معروف فلم ہیروئنز کی طرح بنے ہوتے ، مہنگی کار ان کو کالج چھوڑنے اور لینے آتی، باوردی ڈرائیور ان کے لئے دروازہ کھولتا اور بند کرتا –

ہمارے درمیان کوئی باقاعدہ دوستی تو نہیں تھی ،لیکن اپنے طور ہم ایک دوجے کا کیتھارسس ضرور کرتے تھے -مجھے بالکل یاد نہیں کیوں ،جب ہمارے شہر کی شامیں چنار کی مانند ہو جاتیں ،کبھی کبھی تو ایسا لگتا کے آج رات نہیں ہو گی دل میں ہوک اٹھتی رات نہیں ہو گی تو صبح کیسے ہو گی ، جانے کب اور کیوں صبح کا سورج ہم عزیزلنسا کے نام منسوب کر چکے تھے ایسی شام ہم کرایہ کی سائیکل پر اس کے گھر سات طواف کر کے دل ہی دل میں حجرہ اسود بھی چوم لیا کرتے تھے -اس وقت ہمیں شب ہجراں کا مطلب اس طرح معلوم نہیں تھا ،جیسے آج ہے مگر اختر شماری کی ترکیب ہم پر پوری طرح منکشف ہو چکی تھی۔

Hot weather

Hot weather

گرمیوں کی تعطیلات یوں تو دو ماہ کی ہی ہوتیں تھیں ،مگر در حقیقت یہ دو صدیوں پر محیط ہوتی تھیں -جلتی ہوئی دوپہر کو کئی شعر تسبیح کے دانوں پر گھومتے – پھر تسبیح کے دانے بکھرنے کا وقت آ گیا ، کانوکیشن کی تقریب نے عہد ترک تعلق پر حتمی دستخط کر دیے-اور پھرہم سب ہی اجنبی منزلوں کی تلاش میں نکل پڑے
آج چالیس برسوں بعد اسکے چہرے کی زردی بتا رہی تھی کہ رکھ رکھا کا پل صراط ڈھے چکا ہے – نستعلیق کا کل قصہ پارینہ ہے -آنکھوں میں مسافت کی تھکن بہت واضح تھی۔

میں نے راکھ میں دبی چنگاری کو ٹٹولتے ہوے پوچھا،تمہاری دوسری بہن کہاں ہے ،کالج کی طرح تمہارے ساتھ نہیں ہے -رونا لیلہ تمھیں یاد ہے ابھی تک میں کیا کہتا میرے ذھن میں تو ابھی تک اس پرفیوم کی خوشبو بسی ہوئی ہے جس کی قیمت میری کالج فیس سے کہیں زیادہ تھی -میں نے دبی خلش سے اٹھتے دھوئیں کو دیکھ لیا تھا -اس سے پہلے کہ میں کوئی اور بات کرتا اس نے پوچھا تم تو اداکار بننا چاہتے تھے -یہاں کیسے ؟
دنیا مجھ سے کہیں زیادہ بہتر اداکاری جانتی ہے اس لئے میری جگہ بن نہیں پائی-بچے برطانیہ میں پڑھ رہے ہیں ،ان کے پاس جا رہا ہوں -میں بھی لندن جارہی ہوں -تمہاری رونا کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے -کیا کیا ہوا اسے ،اس نے اپنی بترتیب سانسوں کو یک جا کرتے ہوے کہا -آخری رسومات دنیا سے چلے جانے والوں کی ہوتی ہیں -پھر تم نے میری رونا کیوں کہا –

اس کے جواب دینے سے پہلے ہماری اگلی پرواز کا اعلان ہو گیا -جہاز میں ہماری ہماری نشستیں میری درخواست پر یک جا کر دیں گئیں – میں اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتا تھا -مگر کھانسی اور سانس کی تکلیف کی وجہ سے وہ بول نہیں پا رہی ہے -میں نے اس سے پوچھا رونا کو کیا ہوا تھا -کہنے لگی پہلے اس کی آنکھیں بگڑ گئیں تھیں ،آنکھیں اس لئے بگڑ گئیں تھیں کہ ہمارے نصیب بگڑ گئی تھے-ماں نے ہماری شادیان بڑے گھروں میں کیں-

house on sky

house on sky

ان گھروں کی چھتیں آسمان جتنی اونچی تھیں -ہم ان چھتوں کو نہ چھونے کی پاداش میں طلاق کا طوق گلے میں لٹکائے ان گھروں کی طرف واپس لوٹ آئے جن میں اب انسان سے ملتے جلتے آسیب بستے تھے چڑیاں دا چمبا وقت کی تیز آندھی بکھیر چکی تھی -میں نے تم کو بہت تلاش کیا ، اپنے لئے نہیں بلکہ ، اسے ایک مرتبہ پھر سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی -اس نے آنکھیں بند کر لیں ،شائد وہ سو نے کی کوشش کر رہی تھی یا سو چکی تھی -ہم دونوں اپنی خواہشوں کی قبروں سے ہزاروں میٹر کی بلندیوں پر آسمان سے ذرا نزدیک پرواز کر رہے تھے .چڑیاں دا چمبا برسوں پیچھے رہ گیا تھا – تحریر: انور جمال فاروقی