گوشہ تنہائی

Alone

Alone

آج جو میں کہونگی وہ ہر گھر کی کہانی ہے ۔کہانی کیا یہ تو زندگی ہے طریقہ ٔ کار الگ سہی لیکن سلسلہ پرانا گھسا پٹا اس لئے جو الفاظ میں استعمال کررہی ہوں کیونکہ حقیقت ایک عورت کی یہ ہی ہے جسکو آپ جس روپ میں دیکھ لیں اسکا مقصد ایک ہی ہے وہ بنی ہی اس دنیا میں قربانی کرنے کیلئے ہے نبھا کرنے کیلئے اور زندگی کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کیلئے ہاں ہاں بلیک میل، کبھی معاشرے کے ہاتھوں کبھی اپنے بچوں کے ہاتھوں اور کبھی والدین یا پھر شوہر صاحب، شوہر صاحب اس لئے اختیار شادی کے بعد انہی کا ہوتا ہے۔ تفصیل میں نہیں جائونگی ۔ دنیا بڑی ایڈوانس ہو گئی ہے اور کسی بھی، آبیتی، جگ بیتی، سوانح حیات ہر کہانی کا ابتدائی اور آخری انجام پڑھ کر قاری کا اسلوب سمجھ جاتی ہے اور باشعور بھی ہے۔اس دور جدید میں میڈیا کافی ترقی کرچکا ہے ہر طرح کا ہم ڈرامہ خواہ وہ عورتوں کے متعلق ہو ہم دیکھتے ہیں، سمجھتے ہیں اسے دیکھ کر سبق بھی حاصل کرتے ہیں اور روتے بھی ہیں لیکن بدلتے نہیں یا یوں کہے لیجئے بدل سکتے ہی نہیں۔

شادی سے پہلے عورت کا گھر والدین کا شادی کے بعد شوہر کا اور پھر بیٹے کی شادی ہوجائے تو اسکا ، عورت کاذاتی گھراپنا گھر جس پر اسکا حق ہو اور فخر سے سربلند کرکے کہہ سکے یہ گھر میرا ہے وہ کونسا سا گھر ہوتا ہے، ماں باپ نے تو بھیج دیا سسرال کہ بیٹی شوہر کا گھر اصل گھر ہوتا ہے وہی تمھارا گھر ہے۔

شاید وہ اس گھر میں رہ جائے گی۔ نابنی تو واپس ماں باپ کے گھر جائے گی نہ بنے کی بہت ساری وجوہات میں وہ وجوہات بحث طلب نہیں اصل چیز ہے وہ جب سے مدد مانگے گی اگر والدین حقیقت میں ول بیلنس والے ہوں تو شاید آئے گی زندگی آسان اور غریب تو نتیجہ، نتائج آپکے سامنے۔ جا بیٹی شوہر کا گھر ہی تیرا گھر ہے کا جملہ ہے اسکی اصل حقیقت بہت زہریلی ہے میں مردوں کچھ نہیں کہونگی کیونکہ وہ برے تو ہوتے ہی نہیں نہ صرف عورت ہوتی ہے۔ مرد کو اختیار اللہ تعالیٰ نے دیا طلا ق کا ، جائز ناجائز سلوک کا ۔ یہ سب دنیا میں صدیوں سے ہوتا آرہا ہے عورت کو استعمال کر5سال 10سال20سال بھی اگر زندگی ٹھیک گزرے یا عورت کی طرف سے کچھ غلط ہوجائے تو اسے نکال باہر کرو۔ ذلت کے ساتھ ، الزامات ، سوچئے کہ وہ جائے گی کہاں جس عورت نے 10 سال آپکی زندگی کو دیئے اسکے لئے چند سال تو کیا چند گھنٹے، چند لمحے ایسے نہیں آتا کہ جب اُسے یہ کہا جائے یا گمان ہو کہ یہ گھر بس اسکا ہے۔ یا تم اس گھر کی مالکن ہوبلکہ اس کے برعکس اس ہی گھر میں جب دل کرے یا ناخوشگوار حالات ہوجاتے ہیں تو اس عورت سے کہا جاتا ہے کہ نکل جائو یہاں سے اور ابھی طلاق دیتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ اُس عورت نے اُس شخص کے ساتھ اتنا عرصہ گزار ہوتا ہے اور مزید برآں بچوں کی پرورش انکی دیکھ بھال وغیرہ اپنا پیٹ کاٹ کر اور اپنی خواہشات مارکر اپنے بچوں اور اپنے ہر دلعزیز شوہر کی خیال رکھنے پر معمور تھی۔

لیکن اتنا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود کہاں چلی جاتی ہے میاں بیوی کی انڈر اسٹینڈنگ کیا یہ سب بکواس ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ اس رشتہ میں منسلک ہونے کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی خواہشات کا احترام کرتے ہیں ۔ پیار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے دنیا کہتی ہے کہ یہ دونوں رشتے ایک گاڑی کے دو پہیہ ہوتے ہیں ۔ کوئی مجھے سمجھائے یا میری سمجھ میں نہیں آتا یا پھر میری عقل ناقص ہے ۔ کہ جب ایک فریق یہ جملے ادا کرتا ہے کہ نکل جائو میرے گھر سے، اپنا انتظام کر لو، تمھیں طلاق دیتا ہوں، سب جملوں کا مفہوم ایک ہی قسم ہے، نکل بھی گئے، طلاق بھی دے دی، اب کیا ہو گا۔

مجھے یقین ہے کہ اکثر لوگوں کا جواب تو یہ ہی ہو گا کہ عورت کو چاہیے کہ ایسے کام ہی نہ کرے جس سے اس کا شوہر اس سے ناراض ہو یا وہ اس عورت پر شک کرے ۔ بس احسن پیرائے سمجھئے لیجئے کہ اس عورت کو ہی کمپرومائز کرنا ہے ۔ اس عورت نے ہی جھکنا ہے ، اس مجروع عورت ہی نے پہل کرتے ہوئے سوری کرنا ہے ۔ بچوں کیلئے انکے مستقبل کیلئے کیونکہ یہ عورت بے گھر ہے اسکا کوئی گھر نہیں کوئی ٹھکانہ نہیں کیا یہ عورت پیدا ہی دربدر ہونے کے لئے ہوئی تھی ۔ پھر ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ اگر زندگی کو خوشگوار بنانا ہے تو آپ زندگی سے سمجھوتا کریں ، اور اپنی آواز بلند نہ کریں، اپنی اوقات کو پہچانیںاپنی حدود کا دائرہ اپنی ذات تک محدود کریں اور سر جھکائیں۔

تحریر : غزالہ سجاد ملک