ہماری جدوجہد کے نتیجے میں ملکی پالیسی نے نیا رخ کیا ہے۔ فضل الرحمن

جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر اور قومی کشمیر کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ہماری جدوجہد کے نتیجے میں ملکی خارجہ پالیسی کو ایک نیا رخ دے دیا ہے جس کے نئے خدو خال قوم کے سامنے آجائیں گے اور قوم اس پر مبارکباد کی مستحق ہے اس بات پر کہ ہم نے ملکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو آواز بلند کی تھی ملک کی خارجہ پالیسی اسی رخ پر جا رہی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی دینی درسگاہ جامعة المعارف الشریعہ میں منعقدہ شیخ الہند سمینار سے خطاب کے دوران کہی انہوں نے کہا کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن ہندوستان کی تحریک آزادی کے مجاہد تھے، وہ مسلح اور پرامن جدوجہد کے درمیان ایک سنگم کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی زندگی آج کی نئی نسل کے لئے راہنما کی حیثیت رکھتی ہے، برصغیر پاک وہند میں اٹھنے والی تمام تحریکات آزادی اور تمام دینی سلسلوں کے امام تھے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پاکستان میں مدارس کے کردار اور دینی جدوجہد کے حامل علماء کے کردار کو ختم کرنا کسی کی خوہش تو ہو سکتی ہے لیکن ان کا یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا انہوں نے کہا کہ ہم پوری دنیا کے ساتھ ان کے باطل نظاموں کے ساتھ ساتھ ایک واضح فریق کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر تے ہوئے مذہبی طبقہ کی رہنمائی کر رہے ہیں اگر جمعیت علماء پارلیمنٹ کا حصہ نہ ہوتی تو آج ملک کا آئین سیکولر بن چکا ہوتاامریکہ کے ساتھ سٹیرٹجک پارٹنرشپ کے خلاف ہم نے ہر مرحلے پر آواز بلند کی ہم نے پارلیمنٹ کے سامنے اپنا موقف رکھا تو پارلیمنٹ نے ہمارے موقف کو قبول کیا اور اس کی تائید کی اور اس کے نتیجے میں وہ قرار داد پاس کی جو نظریاتی طور پر ہمارا منشاء تھاپھر جب اس قرار داد پر عمل نہیں ہوا تو اس پر ہمیں بہت سے ناگوار واقعات سے نمٹنا پڑااور سابقہ پالیسیوں کے رسوا کن نتائج کا سامناکرنا پڑااور آج پھر قومی سلامتی کمیٹی کے اندر انشاء اللہ چند روز کے بعد پاکستان کی از سر نو خارجہ پالیسی کے خد و خال سامنے آ جائیں گے۔
تحریکیں لہروں کی ماند آہستہ آہستہ اپنا سفر مکمل کرتی ہیں لہروں کا منظر بڑا خوبصورت ہوتا ہے اور لوگ اس منظر کو دیکھنے کے لئے سمندر کے کنارے جاتے ہیں کبھی بھی کوئی سونامی کو دیکھنے نہیں جا یا کرتا نعروں سے کچھ نہیں بننے والا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بھی کچھ نہ دے سکا نعروں سے تبدیلی ممکن نہیں جب تک نعروں کے پیچھے ایک واضح منشور نہ ہو۔