یوم حساب

ifait hussain

ifait hussain

ہسپتال میں ایک 70سے 75 سالہ بزرگ کی تفتیش ناک حالت دیکھ کر میںگھبرا گیامیری بچپن سے ہی یہ نیچر ہے کہ کسی کو بھی تکلیف میں نہیںدیکھ سکتا ہوں۔ میں اور میرے ساتھی ہسپتال آئے تو تھے غیر معیاری ادویات کے استعمال سے متاثر ہوئے مریضوں کی معلومات حاصل کرنے کے لیئے لیکن اُس بزرگ کی درد ناک آہوں اور سسکیوں نے ہمارے قدم وہیں پر روک دیئے ہماری طرح اور لوگ بھی بزرگ کو تڑپتا دیکھ کر اللہتعالی ٰسے دعا کر رہے تھے کہ اُسے تکلیف سے نجات مل جائے کیونکہ وہ بزرگ مسلسل چیخ چیخ کر یہ صدائیں لگا رہا تھا !مت کاٹو مجھے ، چھوڑ دو ، بہت تکلیف ہورہی ہے۔۔۔یا اللہمعاف کردے ،بخش دے میرے گناہ معاف کردے،تقریباً آدھے پونے گھنٹے بعد جب بزرگ نارمل ہوگیا تو ہم اُسکے متعلقہ ڈاکٹر سے ملے ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے یہ بزرگ اسی میں ہسپتال زیر علاج ہے وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہے لیکن جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہے بظاہر اُسے کوئی بیماری نہیں ہے لیکن دماغی طور پر فٹ نہیں ہے ہمارے کئی بار پوچھنے کے باوجود بھی وہ اپنے بارے میں کچھ نہیں بتا تا او ر جب سے وہ ہسپتال میں آیا ہے اُسکی فیملی کے کسی ممبر نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ملنے آیاہے اُس نے ہمیں یہی بتا یا ہو ا ہے کہ دنیا میں اسکا کوئی نہیںہے۔
ڈاکڑ کی باتیں سن کر ہم لوگوں نے بزرگ سے ملاقات کرنے کا پروگرام بنایاجب ہم بزرگ کے کمرے میں پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ اب وہ  بالکل ٹھیک تھا اُسے دیکھ کر ایسا نہیںلگ رہا تھا کہ یہ وہی بزرگ ہے جو تھوڑی دیر پہلے بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ ہم نے بزرگ کو سلام کیا اورر اپنے بار ے میں بتا یا تب بزرگ نے سر ہلایا اور ہاتھ کے اشعارے سے کمرے میں پڑے صوفے پر بیٹھنے کو کہاصوفے پر بیٹھتے ہی میں بزرگ سے مخاطب ہوا ہم لوگ آپ کے ڈاکٹر سے ملے ہیں اس نے بتایا ہے کہ آپ کوکوئی بھی جسمانی بیماری نہیں ہے آپکو کوئی ذہنی اُلجھن ہے اگر آپ مناسب سمجھے تو اپنی پریشانی ہمارے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ہم آپ کی کوئی مدد کر سکیں۔بزرگ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اوربولا!جو کچھ میرے ساتھ ہورہا ہے وہ میرا اپنا کیا میر ے سامنے آرہا ہے مجھے میرے گناہوں کی سزا مل رہی ہے ۔۔۔میںپولیس کا ریٹائرڈ  ایس ۔ایچ ۔او  ہوں میں نے پولیس کا محکمہ مُلک اور قوم کی خدمت کرنے کے لیئے نہیںبلکہ اپنے ذاتی مفاد ات اور پیسہ کمانے کے لیئے جوائن کیا تھا اور میں اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوا حلال حرام ،جائز اور ناجائز کی پرواہ کیئے بغیر خوب پیسہ کمایاجب میری پہلی با ر بطور S.H.O تھانے میںتعناتی ہوئی تو میں اپنے لا محدود اختیارات دیکھ کر میں اپنے حواس کھو بیٹھا اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میرے پاس یہی اقتدار کے چند دن ہیں پھر پتہ نہیں یہ موقع ملے یا نہ ملے پیسہ کمانے کا یہ سنہری موقع ہے مجھے میرے مقصد میں کامیاب بنانے والے ساتھی میرے محکمے ہی سے مل گئے جنہوں نے علاقے کے ڈکیتوں سے میر ی ڈیل کروائی اس ڈیل کے بعد تو پھر وارے نیا رے ہوگئے میں نے اتنا پیسہ کمایا کہ جسکا حساب رکھنا مشکل ہوگیا سب کچھ ویسے ہی ہورہا تھا جیسا میںچاہتا تھا کہ ایک دن گائوں کے چند لوگ شکائیت لے کر تھانے آئے کہ گائوں کے کسی کسان کے گھر  سے کل رات ڈاکو  اُسکی بیٹیوں کا جہیز کا پورا سامان لوٹ کر لے گئے ہیں جن کی شادیاں ایک ہفتے بعد ہونا طے تھیں۔ غریب کسان پچھلے دس سالوں سے اپنی بیٹیوں کے جہیزکے لیئے ایک ایک پائی جمع کر ہاتھا کسان کی دس سال کی کمائی جو ایک رات میں لٹ گئی اس صدمے کوبرداشت نہ کرتے ہوئے اور باپ کا افسردہ چہرہ دیکھ کر دونوں بیٹیوں نے زہر پی کر خودکشی کر لی اور اُنکی ماں بھی جوان بیٹیوں کے ڈولیوںکی جگہ جنازے اُٹھتے دیکھ کر زندہ نہ رہی۔
گائوں کے ایک ہی گھر سے جب تین تین جنازے نکلے تو پورے گائوں میں کہرام مچ گیاسب کی زبان پر یہی تھا اگر ڈاکو غریب کسان کا گھر نہ لوٹتے تو شاید اس گھر میں آج صفہے ماتم نہ بچھی ہوتی گائوں والوں نے احتجاج شروع کر دیا کہ ڈاکووں کو جلد سے جلد گرفتار کرکے سزائیں دی جائیںگائوں والوں کے پُر زور احتجاج اور اوپر کے دبائو کی وجہ سے میں نے تفتیش شروع کردی تب پتہ چلا کہ یہ وہی ڈاکو ہیں جو ہمارے لیئے کام کرتے تھے اس لیئے میں بے بس تھا چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا اپنی عزت اور نوکر یا ں بچانے کے لیئے ہم سب نے مل جل کر معاملے کو رفع دفع کر دیا اور تھو ڑے عر صے بعد گائو ں کے لوگ بھی ٹھندے پڑ گئے لیکن اس واقعے نے میری زندگی کا سکون ختم کر دیا میں اپنے آپ سے نظریں چُرانے لگا میرا ضمیر مجھ سے ملامت کرنے لگا کہ کسان کی بیٹیوںکا قا تل میں ہوں میر ی صحت دن بدن بگڑنے لگی ذہنی توازن بھی ختم ہوتا گیا اس لیے مجھے اپنی نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑ ا ۔اپنے رتبے اپنے عہدے سے میں نے غداری کی کاغذ کے چند ٹکڑوں کے لیے میں گناہ کے ایسے بوجھ تلے دب گیا کہ پھر اُٹھنے کی سکت نہ رہی ۔اس بات کو لے کر میرا ذہنی تنائو اتنا بڑھ گیا کہ مجھے دورے پڑنا شروع ہو گئے مجھے ایسے لگتا ہے کہ کئی ہزار سانپ مجھے ڈس رہے ہیںمیر اپور ا جسم کانپنے لگتاہے اور میں اپنا ہوش وہواس کھو بیٹھتاہوں۔
میرے دو بیٹے جو امریکہ میں ہیں جو میر ی بدولت ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزار رہے ہیں وہ یہ بھول چکے ہیں کہ انکا باپ زندہ ہے یا مر گیا ہے اوراگر زندہ ہے تو کس حال میں ہے جنکا مستقبل بنانے کے لیے میں نے اپنی آخرت خراب کی اُن کو میری پرواہ تک نہیں دو دو بیٹے ہونے کے باوجود میں یہاں بے وارثوں کی طرح پڑا ہوں۔ کرپشن سے کمائے ہوئے پیسے سے میں نے اپنی اولاد کی جس طرح  پرورش کی ہے اب اُسی کا صلہ سود سمیت مجھے واپس مل رہا ہے ۔اُس نے جب اپنی کہانی ختم کی تو ہمارے آگئے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا اور گزراش کی خد ا کے لیئے اسکی یہ کہانی اخبار وں کے ذریعے لوگوں تک پہنچا دیں تاکہ وہ لوگ جو اپنے عہدوںسے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیںاور کرپشن کرتے ہیں شاید انکو میر ی کہانی سے کوئی سبق مل جائے ۔۔۔پھر چند روز بعد ہی اُس بزرگ کے مر جانے کی خبر ملی وہ شاید زندہ ہی اسی لیئے تھا کہ اپنی کہانی ہمیں سناسکے وہ خود تو مر گیا لیکن دے گیا ہم سب کو یہ سبق کہ ہر انسان کو اُسکے کیئے کی سزاء مل کر ہی رہتی ہے وہ سزاچاہے اسی دنیا میں مل جائے یا پھر آخرت میںاُس سے کوئی بچ نہیں سکتااور دے گیا یہ سوچ کہ جو جتنے بڑے عہدے پر ہوتا ہے اس پر اتنی ہی زیادہ اللہتعالیٰ کی آزمائش ہوتی ہے ۔ صدر ،وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ ، وزیر ، پولیس کمشنر، چیف آف آرمی سٹاف یا چیف جسٹس یہ سب بڑے بڑے عہدے  اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں جس نے بھی اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اُٹھا یا یعنی امانت میںخیانت کی تو پھر  یا د  رکھو  قیامت کا وہ د ن ۔۔۔وہ یو م حساب ! اُ س دن شرمندہ ہونے سے بہتر ہے کہ اپنے آپ کو بدل لو کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس ایس ایچ او کی طرح اس وقت پچھتائو جب بہت دیر ہوچکی ہو۔
اقتدارکے نشے میں مست حکمرانو !  ایک عام چیف جسٹس کی ایک عام سی عدالت سے ڈرنے والو !  ڈرو اس دن سے جس دن  سب سے بڑی عدالت میں سب سے بڑے چیف جسٹس کے سامنے پیش ہونا ہوگا جس دن کسی بادشاہ  یا کسی وزیر کو کوئی استشنیٰ حاصل نہ ہوگئی جس دن نہ کوئی کسی کا حمائتی ہوگا نہ کوئی اتحادی ہوگا اور نہ ہی کوئی کسی کی وکالت کرنے والا اعتزازا حسن ہوگاآپ کااعمال نامہ آپکے ہاتھ میں ہوگا اور یہ پوچھا جائے گاکہ آپ کے دور حکومت میں کتنے غریبوں کو  روٹی ،کپڑا اور مکان ملا ،کتنے بیروزگاروں کو روز گار ملا ، کتنے قصور واروں کو سزا ور کتنے معصوموں کو انصاف مِلا اور حساب دینا ہوگا پاکستانی قوم کی اُس امانت کا  وہ چاہے آپکے ڈالرز اکائونٹ میںہے، درہم اکائونٹ میں یا پھر سوئس اکاونٹ میںسب سچ بتانا ہوگا کیونکہ اُس دن صر ف سچ بولا جائیگا اور سچ سُنا جائے گا۔
تحریر:کفایت حسین