افغانستان 1747ء سے 1978 ء تک تاریخ کی نظر سے

Afghanistan

Afghanistan

قبل اسلام :

افغانستان میں پہلے بھی پچاس ہزار سال پہلے بھی آبادی موجود تھی ۔ اور اس کے زراعت بھی دنیا کی اؤلین زراعت میں شامل ہے۔ سن 2000 قبل مسیح میں آریاو ں نے افغانستان کو تاراج کیا اور جسے ایرانیوں نے ان سے چھین لیا ، اس کے بعد یہ عصہ تک سلطنت فارس کا حصہ رہا ۔ 329 قبل مسیح میں اس کے کئی حصے ایرانیوں سے سکند ر اعظم نے چھین لیے جس میں بلغ شامل ہیمگر یونانیوں کا یہ قبضہ زیادہ دیر نہ رہا۔642 عیسوی تک یہ علاقہ وقتاَ فوقتا َ ہنو، منگولوں ، ساسانیوں اور ایرانیوں سلطنتکے پاس رہا ۔جس کے بعد اس علاقے کو مسلمانوں نے فتح کر لیا ۔ مسلمانوں کی اس فتح کی تاریخ میں عربوں کی فتح سمجھا جاتا ہے جو سراسر غلط اور ایک جھوٹی تاریخ ہے۔ کیونکہ مسلمانوں میں کئی اقوام کے لوگ شامل ہیں اسلا م سے پہلے لوگ یہاں بدھ مت اور قبائلی مذہب کے پیروکار تھے۔


افغانستان میں پہلے بھی پچاس ہزار سال پہلے بھی آبادی موجود تھی ۔ اور اس کے زراعت بھی دنیا کی اؤلین زراعت میں شامل ہے۔ سن 2000 قبل مسیح میں آریاو ں نے افغانستان کو تاراج کیا اور جسے ایرانیوں نے ان سے چھین لیا ، اس کے بعد یہ عصہ تک سلطنت فارس کا حصہ رہا ۔ 329 قبل مسیح میں اس کے کئی حصے ایرانیوں سے سکند ر اعظم نے چھین لیے جس میں بلغ شامل ہیمگر یونانیوں کا یہ قبضہ زیادہ دیر نہ رہا۔642 عیسوی تک یہ علاقہ وقتاَ فوقتا َ ہنو، منگولوں ، ساسانیوں اور ایرانیوں کے پاس رہا ۔جس کے بعد اس علاقے کو مسلمانوں نے فتح کر لیا ۔ مسلمانوں کی اس فتح کی تاریخ میں عربوں کی فتح سمجھا جاتا ہے جو سراسر غلط اور ایک جھوٹی تاریخ ہے۔ کیونکہ مسلمانوں میں کئی اقوام کے لوگ شامل ہیں اسلا م سے پہلے لوگ یہاں بدھ مت اور قبائلی مذہب کے پیروکار تھے۔

اسلامی دور احمد شاہ درانی ( ابدالی)تک (642ء سے1747ء تک)
642ء میں مسلمانوں نے اس علاقے کو فتح کیامگر یہاں کے حکمران علاقائی لوگوں کو ہی بنایا۔ پہلے یہ حکمرانی خراسانی عربوں کے پاس رہی ۔998ء میں محمود غزنوی نے ان سے اقتدار چھین لیا ۔ غوریوں نے 1146ء میں غزنویوں کو شکست دی۔ اور انھیں غزنوی کے علاقے تک محدود کر دیا ۔یہ سب مسلمان تھے مگر 1219ء میںچنگیز خان منگولوں نے افغانستان کو تاراج کر دیا۔ ھرات ، غزنی اور بلخ مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ منگولوں بعد میں خود مسلمان ہو گئے۔حتیٰ کہ تیمور نے چودھویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کر لی۔ اسی ک اولاد سے شہنشاہبابر نے کابل کو سولویں صدی کے شروع میں کابل کو اپنا دارالحکومت قرار دیا۔

Afghanistan Parts

Afghanistan Parts

سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک افغانستان کئی حصوں میں تقسیم رہا ۔ شمالی حصہ پر ابک ، مغربی حصے (ھرات سمیت ) پر ایرانی صفویوں ، اور مشرقی حصہ پر مغل اور پشتون قابض رہے۔1709ء میں پشتونوں نے صفویوں کے خلاف جنگ لڑی اور 1719ء سے 1729ء تک افغانستان بلکہ ایرانی شہر اصفہا ن پر بھی قبضہ رکھا ۔1729ء ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے انھیں واپس دھکیلا اور ان کے قبضے سے تمام علاقے چھڑائے حتیٰ کہ 1738ء میں کندھار اور غزنی پر بھی قبضہ کر لیا۔ جو 1747 ء تک جاری رہا ۔ پشتونوں اور فارسی بولنے والوں کی یہ کشمکش آج بھی جاری ہے حالانکہ یہ دونوں مسلمان ہیں۔

درانی سلطنت (1747ء سے 1823ئ):
احمد شاہ درانی کو بجا طور پر افغانستان کا بانی کہا جاتا ہے ۔ احمد شاہ درانی کو احمد شاہ ابدالی کے نام کے ساتھ بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جون1747ء میں نادر شاہ قتل ہوگیا جس کے بعد لویہ جرگہ نے ابدالی قبیلہ کے احمد شاہ ابدالی کو سربراہ چن لیا ۔ پہلے لندھار میںاپنی حکومت قائم کرنے کے بعد احمد شاہ درانی نے تما م تر قوت افغانستان کو ایک ملک بنانے میں صرف کی ۔ درانی سلطنت میں موجود ایران ، افغانستان ، پاکستان اور بھارت کے کچھ علاقے شامل تھے۔اس کی سلطنت میں ایران کے مشہور شہر مشہد سے لیکر کشمیر اور موجودہ بھارت کے شہر دہلی تک کے علاقے شامل تھے۔

احمد شا ہ درانی کا ایک اہم کارنامہ جنوری 1761ء میں ” پانی بت کے تیسری جنگ” میں مرہٹوں کو شکست دینا تھا۔ لیکن اس جنگ کے بعد سکھوں نے پنجاب میں اثر بڑھانا شروع کیا اور آہستہ آہستہ پنجاب کے کئی علاقوںپر قبضہ کر لیا لیکن اس وقت تک افغانستان کو ایک مضبوط ملک کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ 1772ء تک احمد شاہ درانی اور اس کے بعد اس کی اولاد کی حکومت رہی۔ اس کے اولاد میں ایوب شاہ کو 1823 ء میں قتل کر دیا گیا ۔ بعد میں کابل کی حکومت محمد شاہ اور پھر 1826ء میں دوست محمد خان کے پاس چلی گئی۔

یورپی اثر(1823ء 1919)
امیر دوست محمد خان جس نے قابل کی حکومت 1826ء میں سنبھال لی تھی ، روس اور ایران سے تعلقات بڑھابا شروع کیے کیونکہ سکھوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا تھا اور انگریزوں نے اپنی روایتی چالاکی کا ثبوت دیتے ہوئے سکھوں اور دہلی کے شاہ شجاع کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنا اثربڑھانا شروع کیا۔ حالانکہ دونوں انگریزوں بظاہر دشمن تھے ۔ شاہ شجاع کو انگریزوں نے کابل کے تخت کے سبز باغ دکھائے۔ اس زمانے میں روس اور برطانیہ ہند میں کئی ہزار میل کا فاصلہ تھا اور وسطی ایشیاء کے شہروں مدو،خیوا، بخارا، اور تاشقند کو مغرب میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے مگر انگریز یہ جانتے تھے کہ روسی ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو روکنے اور افغانستان میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے انگریزوں کی مکارانہ جدوجہد کو عظیم جال بازیوں (The Great Game) کے نا م کے سے یاد کیا جاتا ہے۔

British War

British War

اس سلسلے میں انگریزوں نے دو جنگیں لڑیں ۔ پہلی جنگ(1839ء 1842- ) اس وقت ہو ئی جب ایرانیوں نے ھرات کے لوگوں کے ساتھ مل کر انگریزوں اور روسیوں کو افغانستان سے بے دخل کرنے کے لیے افواج پورے ملک میں روانہ کیں۔ انگریزوں نے کابل پرقبضہ کر کے دوست محمد خان کو گرفتار کر لیا۔ افغانستان نے برطانوی فوج کے ایک حصے کو مکمل طور پر قتل کر دیا جو سولہ ہزار افراد پر مشتمل تھی۔صرف ایک شخص زندہ بچا۔ انگریز مدتوں اپنے زخم چاٹتے رہے۔ اسی وجہ سے مجبوراََ انگریزوں نے دوست محمدخان کو رہا کر دیا ۔ بعد میں دوست محمد نے ھرات کو بھی فتح کر لیا دوسری جنگ (1878ء 1880- ) اُس وقت ہوئی جب امیر شیر علی نے برطانوی سفارت کاروں کا کابل میں رہنے کی اجازت نہ دی۔

اس جنگ کے بعد انگریزوں کی ایما پر 1880ء میں امیر عبدالرحمن نے افغانستان کا اقتدار حاصل کیا مگر عملاََ کابل کے خارجی معاملات انگریزوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔اثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے افغانستان میں سرحدوں کے تعین کا معاہدہ بھی کیا ۔ امیر عبدالرحمن کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان بعد میں افغانستان کے بادشاہ ہوئے۔ ان کے دور میں افغانستان میں مغربی مدرسے کھلے اور انگریزوں کا اثر مذید بڑھ گیا ۔ اگرچہ بظاہرانگریز وں نے افغانستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا ۔ 1907ء میں امیر حبیب اللہ خان نے انگریزوں کی دعوت پر برطانوی ھند کا دورہ بھی کیا ۔ اسی مغربی دوستی اور اثر کی وجہ سے امیر حبیب اللہ خان کو اس کے رشتہ داروں نے 20فروری 1919ء قتل کر دیا۔

اس کے بعد اسکا بیٹا امان اللہ خان بادشاہ بن گیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی مگر 19اگست 1919ء کو اس کے اور انگریزوں کے درمیان راولپنڈی میں ایک ایک معاہدہ ہوا جس میں انگریزوں نے افغانستان پر اپنا کنٹرول ختم کیا اور افغانستان میں ان کا اثر تقریبا َ ختم ہوگیا ۔ 19اگست 1919ء کو اسی وجہ سے افغانستان کی یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔
آزادی کے بعد (1919ء تا 1978)
امان اللہ خان ( دور اقتدار 1919ء تا 1929ء ) نے افغانستان کااقتدار سنبھالنے کے بعد اصلاحات کیں اور مغربی دنیاسے تعلقات قائم کیے۔ اصلاحات میں بنیادی تعلیم کا لازمی قرار دینا اور مغربی طرز کی دیگر اصلاحات شامل تھیں ۔ اس نے 1921ء میں افغانستان میں ہوائی فوج بھی بنائی جس کے جہاز روس سے آئے لیکن افواج کی تربیت ترکی اور فرانس سے کروائی گئی۔ 1927ء میں امان اللہ خان یورپ اور ترکی کے دورہ بھی کیا.

جس میں اس نے مغربی مادی ترقی کا جائزہ لیا اور افغانستان میں ویسی ترقی کی خواہش کی مگ جب اس نے کمال اتاترک کی طرز پر پردہ پابندی لگانے کی کوشیش کی تو قبائل میں بغاوت پھوٹ پڑی اور افغانستان میں تما م افغان اس کے سخت خلاف ہو گئے۔ شنواری قبائل نے نومبر1928ء میں جلال آباد سے بغاوت شروع کی اور دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر کابل کی طرف بڑھنے لگے ۔ شمال سے تاجک کابل کی طرف
بڑھنے لگے۔ امان اللہ خان پہلے کندھار بھاگا اور فوج تیار کرنے کی کوشیش کی مگر ناکام ہوا جس کے بعد وہ بھارت فرار ہوگیا۔ وہاں سے پہلے اطالیہ اور بعد میں سوئزرلینڈ میں پناہ لی جہاں 1960ء میں وفات پائی۔اس بغاوت کے دوران جنوری 1929ء میں حبیب اللہ کلاکانی نے کابل قبضہ کیا اور حبیب اللہ شاہ غازی کے نام سے حکومت قائم کی مگر اکتوبر 1929ء میں جنرل نادر خان کی فوج نے کابل کو گھیر لیا.

General Nadir Khan

General Nadir Khan

جس پر حبیب اللہ کلاکانی فرار ہو کر اپنے گاؤں چلا گیا ۔ جنرل نادر خان کو انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ جنھوں نے اسے ہتھیار اور پیسہ بھی دیا تھا ، اس کے علاوہ انگریزوں نے جنرل نادر خان کو ایک ہزار کا فوج بھی تیار کر دی تھی جو وزیستانی قبائلیوں پر مشتمل تھی۔ نادر خان قران کو ضامن بنا کر اس کو پنا ہ اور معافی دی مگر جب وہ کابل آیا تو اسے قتل کروا دیا گیا۔جنرل نادر خان (دور اقتدار:1929ء تا 1933ئ) جو امان اللہ خان کا رشتہ دار تھااس نے نادر شاہ کے نام سے1929ء میں افغانستان کا تخت سنبھالا۔ مگر 1933ء میں کابل کے ایک طالب علم نے اسے قتل کر دیا جس کے بعد اس کے انیس سالہ بیٹے ظاہر شاہ بادشاہ بن گیا۔ ظاہر شاہ ( دور اقتدار :1933ء تا 1973ء ) نے چالیس سال تک افغانستان پر حکومت کی۔ وہ افغانستان کا آخری بادشاہ بھی تھا۔ اس نے کئی وزیر اعظم بدلے جن کی مد د سے اس نے حکومت کی۔

میں سے ایک سردار محمد داؤد خان ( المعروف سردار داؤد) تھا جو اس کا کزن تھا سردار داؤد نے روس اور بھارت سے تعلقت بڑھائے۔ اسے پاکستان سے نفرت تھی۔ پاکستان سے تعلقت کی خرابی کی وجہ سے افغانستان کو اقتصادی مشکلات ہوئیں تو سردار داؤد کو 1963ء میں اپنے عہدے سے مستفیٰ ہونا پڑا۔ مگر سردار داؤد (دورِ صدارت :1973ء 1978- ئ)اس نے دس سال بعد 17جولائی 1973ء کو ایک فوجی بغاوت میں افغانستان پر قبضہ کر لیا ۔ اس بغاوت میں روس ( اُس وقت کے سوویت یونین ) کی مدد حاصل تھی۔ظاہر شاہ فرار ہو کراطالیہ چلا گیا۔27اپریل 1978ء کو سردار داؤدکو ایکاور بغاوت میں قتل کر دیا گیا۔اور نور محمد ترہ کئی صدر بن گیا۔ اس بغاوت کو بھی روس کی مدد سے ممکن بنادیا
گیا۔

اس حکومت نے کمیونزم کو رائج کرنے کی کوشیش کی اور روس کی ہر میدان میں مدد لی جن میں سڑکوں کی تعمیرسے لیے کرفوجی مدد تک سب کچھ شامل تھا روس کی یہ کامیاب ی امریکہ کو پسند نہیں آئی۔ چنانچہ سی آئی اے نے افغانستان میں اسلامی قوتوں کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ جس سے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے۔ نتیجاََ 1979ء میں روس نے افغانستان کی حکومت کی دعوت پرافغانستان میں اپنی فوجی اتار دی اور عملاََ افغانستان پر اسی طرح روس کا قبضہ ہو گیاجس طرح آج کل امریکہ کا قبضہ ہے۔
تحریر: آصف یٰسین لانگو