بھارت سرحدی دہشت گردی کا علاج فوری

Indian Army

Indian Army

تحریر: علی عمران شاہین

بھارتی افواج نے ماہ اگست میں پاکستانی سرحد، ورکنگ بائونڈری، سیز فائر لائن (کنٹرول لائن) پر جس گولہ باری اور فائرنگ کا آغاز کیا تھا، وہ اب بھی پورے عروج پر ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے اب یہ تک کہہ دیا ہے کہ پاکستان پر بارش کی طرح گولے برسائے جائیں۔اس سے پہلے تو مودی نے اپنی مسلح افواج جو یہ تک اجازت دے تھی کہ جب اور جتنی چاہیں پاکستان کے پر فوجی چڑھائی اور کارروائی کر سکتے ہیں۔اس سے قبل مودی نے کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کو ٹھیک ٹھاک سبق سکھا دیا ہے۔

سیلاب سے پہلے جب بھارت نے اپنی اس کارروائی کا آغاز کیا تھا تو اس وقت ساتھ ہی پاکستانی سرحد پربھاری ہتھیار اور گولہ بارود لایا جاتارہا۔ اس دوران میں سیلاب آ گیا جس کے باعث بھارت کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں تھوڑی سی تاخیر ہوئی۔ ابھی سیلاب گزر رہا ہے اور متاثرین اپنے تباہ حال گھروں کا ملبہ اکٹھے کرنے میں مصروف ہیں کہ بھارت نے گولہ باری اور فائرنگ تیز تر کر دی ہے۔ یہ گولہ باری اور فائرنگ اس قدر زبردست ہے کہ ناروال اور سیالکوٹ سے ایک لاکھ کے قریب پاکستانی شہری اپنے گھر بار چھوڑ کر پیچھے آنے پر مجبور ہو چکے ہیں، بیسیوں بستیاں ویران پڑی ہیں۔ اب یہ سلسلہ آزاد کشمیر کی جانب بڑھ رہا ہے۔

پاکستانی سرحدی علاقوں میں یہ گولہ باری عین عیدالاضحی کی رات گیارہ بجے شروع کی گئی اور عید کے سارے دن جب وطن عزیز کے لوگ چھٹیاں اور خوشیاں منا رہے تھے، ہمارے ملک کے لاکھوں لوگ بھارتی گولہ باری اور گولیوں کا سامنا کر رہے تھے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان پر ہونے والی اس گولہ باری اور فائرنگ کو پاک رینجرز کے سربراہ نے چھوٹی جنگ قرار دیا اور کہا کہ بھارت تو باقاعدہ محدود جنگ میں مصروف ہے اور پاکستان پر لاکھوں گولیاں اور ہزاروں مارٹر شیل برسا چکا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے دفاعی حکام کہہ رہے ہیں کہ جب سے پاکستان نے 2003ء میں جنگ بندی کی تھی، یہ اس کے بعد کی سب سے بڑی گولہ باری اور فائرنگ ہے۔

یہ بات تو سبھی پر عیاں ہے کہ ہمارے سرحدی علاقوں میں سبھی لوگ زمیندار ہیں جوفصلیں اگاتے ہیں، جانور پالتے اور اس سے اپنا پیٹ پالتے اور دوسروں کیلئے کھانے پینے کا بھی انتظام کرتے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک کی ایک بڑی فصل چاول جس کا مرکز سیالکوٹ اور نارووال ہے، یہ فصل پک کر تیار کھڑی ہے اور اس کی کٹائی شروع ہے۔ عین ان دنوں میں بھارت نے اندھی گولہ باری اور فائرنگ کر کے ان بستیوں اور فصلوں کے مالکان کو علاقے چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے جس سے اب یہ فصلیں بھی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ لوگ سرحدی علاقے چھوڑ کر پیچھے آچکے ہیں لیکن یہ اپنے علاقوں اور گھروں کے بغیر کتنے دن تک اسی طرح بے آسرا اور بے سہارا رہ سکتے ہیں؟

ان لوگوں کے ہمراہ ہزاروں جانور بھی ہیں۔ ان شہریوں، جن میں عورتیں، بچے، بوڑھے سبھی شامل ہیں، کے ساتھ ان جانوروں کی رہائش و خوراک کا انتظام و بندوبست کرنا بھی شامل ہے۔ یہ کس قدر مشکل مرحلہ ہے ہمیں ضرور سوچنا چاہیے۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ بھارت میں اس وقت بی جے پی کے اس رہنما نریندر مودی کی حکومت ہے جو آج بھی پاکستان کو سبق سکھانے اور مسلمانوں کو مٹانے کے نعرے پر ہے۔ نریندر مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے پرپرزے پہلے دن سے نکالنے شروع کئے۔ پہلے بھارت بھر میں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم شروع ہوئے جو اب بھی ہر روز تیز ہو رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان پر حملے شروع کر دیئے گئے۔ حالیہ ماہ ستمبر کے آغاز میں پاکستان سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں زبردست اور تباہ کن سیلاب آیا۔ سرینگر سمیت سارا جنوبی کشمیر سونامی جیسی تباہی سے گزرا ہے۔ لاکھوں گھر تباہ ہیں تو کھربوں کا مالی نقصان ہوا ہے۔

Narendra Modi

Narendra Modi

سارے جنوبی کشمیر کا سارا نظام ہر لحاظ سے کھنڈر بن چکا ہے لیکن نریندر مودی نے ان کشمیریوں کی مدد اور بحالی کا نام تک نہیں لیا کیونکہ اس نے تو اقتدار میں آنے کے لئے اپنی تقاریر میں کھل کر کہا ہے کہ وہ کشمیر کے قضیہ کو ہمیشہ کیلئے ختم کرے گا۔ اب ظاہر ہے کشمیری قوم کو بھارت 67سال میں شکست نہ دے سکا، سو اب انہوں نے کشمیریوں پر ٹوٹنے والی اس قدرتی آفت کو ایک ہتھیار بنا لیا ہے اور کشمیریوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے کے لئے چھوڑ چکا ہے۔ یہی کچھ وہ پاکستان کے ساتھ کر رہے ہیں۔ بھارت جانتا ہے کہ پاکستان اس وقت سخت ترین حالات کا سامنا کر رہا ہے۔

اس وقت پاکستان سرحدوں پر جنگ لڑ رہا ہے، ساری دنیا جو افغانستان میں نائن الیون کے بعد کی جنگ لڑنے آئی تھی وہ اب اس کے ساتھ عملاً برسر پیکار ہے۔ ایران جیسا پڑوسی بھی دھمکیاں لگا اور حملے کر رہا ہے تو افغان کٹھ پتلی فورسز بھی پیچھے نہیں ہیں، ملک کے اندر بھی دہشت گردی کو پاک افواج فرو کر رہی ہیں۔ بھارت نے سوچا اور سمجھا ہے کہ ان مشکلات میں گھرے پاکستان اور پاکستانی افواج کو الجھا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کر سکتا ہے اور وہ پاکستان کو مکمل طور پر اپنی باج گزار ریاست جیسا بنا سکتا ہے اور اسے اس حال تک پہنچا سکتا ہے کہ پاکستان کشمیر کا نام لینا چھوڑ دے اور پاکستان اور اہل پاکستان کو کشمیر بھول کر اپنا موجودہ وطن بچانے کی فکر لگ جائے۔

اس سب کے باوجودہمیں بھارت سے اس لحاظ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ وہ بہت بڑا ملک ہے، اس کی فوج بڑی ہے اور ساری دنیا اس کی حمایتی ہے۔ بھارت اپنے قیام سے لے کر آج تک ایک متعصب ہندو ریاست کے طور پر سامنے آیا۔ اس وقت تو مودی کی شکل میں ایک وزیراعظم سامنے لا کر وہ مکمل طور پر ہندو اور اسلام دشمن ہونے کا ثبوت دے چکے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات ہمارے پیش نظر ہونی چاہئے کہ اس خطے کے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ہندوئوں نے آج تک ساری تاریخ انسانی میں کبھی کسی دوسری ریاست، تہذیب یا قوم کو فتح نہیں کیا۔ بھارت اور ہندوچانکیہ کی ہزاروں سال کی جنگی تاریخ میں ان کا سب سے بڑا ”کارنامہ” ہمارے ملک کا دولخت کرنا اور بنگلہ دیش بنانا ہے لیکن اس میں تو ہمارے لوگوں کی بھی فاش غلطیاں اور جرائم شامل تھے وگرنہ تنہا بھارت کبھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

اس لحاظ سے تاریخ کا یہ پہلو سب کے سامنے ہونا چاہئے کہ ہندو ہمیشہ سے مفتوح قوم ہے اور یہ اپنے خطے سے بھی کبھی باہر نہیں نکل سکے اور نہ ہی کبھی یہ بہادری کے ساتھ مقابلہ کر سکتے ہیں جبکہ اسلام اور اس کے ماننے والے مسلمان ہمیشہ فاتح بن کر اس خطے میں ہی نہیں دنیا بھر میں آج بھی سفر کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے حالات چاہے ہمیں جتنے بھی بدتر نظر آئیں لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آج بھی میدانوں میں ہر محاذ پر عالمی استعماری اتحادکے خلاف ڈٹے ہوئے صرف اور صرف مسلمان ہیں ۔ بھارت کے حوالے سے ہمیں ساری قوم کا یہی ذہن بنانا ہے کہ وہ کچھ بھی کر لیں وہ ہمیں سوا ہزار سال کی تاریخ میں کبھی فتح نہیں کر سکے اور یہ آج بھی نہیں ہو سکتا۔ہمیں ڈرانے، دھمکانے اور جھکانے کے خواب دیکھنے والے بھارت کو تو حالیہ عرصہ میں پہلے سری لنکا کی پراکسی جنگ میں منہ کی کھانا پڑی تو اب وہ چین سے روزانہ کی بنیاد پر کبھی لداخ تو کبھی ہماچل پردیش میںجوتے کھاتا اور ذلت اٹھاتا ہے۔

کشمیری مجاہدین اور بھارت کے اندر پھیلی بے شمار آزادی کی تحریکوں نے بھارت کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ بس آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھارت سے مرعوب ہونے کے بجائے مضبوط پائوں پر کھڑے ہو کر ایسا جرأت مندانہ موقف لے کر چلیں کہ بھارت اور اسکی ہندو چانکیہ کی بزدلانہ تاریخ ہی ان کا مقدر رہے۔بھارت کے ساتھ دوستی و محبت و تجارت کے دعوے کل بھی جھوٹے تھے آج بھی جھوٹے ہیں۔تاریخ کا کل بھی سبق یہی تھا، آج بھی یہی ہے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین